• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں ستاون مسلم ممالک ہیں، اُن میں قمری مہینوں رمضان المبارک، عیدالفطر اور عیدالاضحی کے لئے جو بھی رویت کا سرکاری نظام ہے، اُس کے مطابق حکومتی اعلان آجاتا ہے اور لوگ اُس پر عمل کرتے ہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے کہ جہاں ٹیلیوژن چینلز آئے دن رویتِ ہلال پر بحثیں شروع کردیتے ہیں اور اسٹوڈیوز میں رونقیں لگاتے ہیں، کیونکہ ہم ساری دنیا میں منفرد خصوصیات کی حامل قوم ہیں۔
2ستمبر کی شب کہا گیابڑی شَدّومد کے ساتھ اپنا قیمتی وقت صَرف کیا کہ مفتی منیب الرحمن نے محکمۂ موسمیات کو چاند کے بارے میں اپنی پیش گوئی پبلک کرنے سے روک دیا ہے اور یہ سماں باندھا کہ گویا اس کے سبب سائنس اور علم کا راستہ روک دیا گیا ہے اور جَہل کی تاریکی کو مُسلّط کیا جارہا ہے ۔اینکر حضرات سے گزارش ہے کہ موجودہ دور میں چاند کی پیدائش یا امکانِ رویت ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے کوئی شخص دنیا والوں سے چھپاسکے یا پردہ ڈال دے۔ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں فلکیات (Astronomy)کے شعبے موجود ہیں،خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو موجود ہے ،پرائیویٹ ماہرین موجود ہیں ،نیٹ پر Moonsighting.comپرکوئی بھی جائے ،تواُسے ساری معلومات مل جاتی ہیں ۔مجھے ہر ماہ درجنوں ماہرین امکانِ رویت کے حوالے سے اپنی رپورٹیں بھیجتے ہیں۔کراچی کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ الرشید ‘‘میں باقاعدہ شعبۂ فلکیات موجود ہے اورہر قمری مہینے کے آغاز سے پہلے اور بعد اُن کی تفصیلی رپورٹ ایک مذہبی روزنامے میں چھپتی ہے ،دعوتِ اسلامی العالمی کے مرکز فیضانِ مدینہ میں بھی شعبۂ توقیت اور فلکیات کام کر رہا ہے ،اُن کی رپورٹیں بھی ہمیں دستیاب ہوتی ہیں ،خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو ، یونیورسٹیوں کے فلکیات کے ماہرین اور آزاد ماہرین بھی ہمیں باقاعدگی سے رپورٹیں بھیجتے ہیں۔
ہماری دینی جامعات میں تخصُّص فی الفقہ والافتاء کے نصاب میں بھی علمِ توقیت وفلکیات کے بارے میں کورس کرائے جاتے ہیں۔ الغرض قابل احترام اینکر حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ صیغۂ راز میں ہواوراُس پر کوئی پردہ ڈال کر لوگوں کی نظروں سے چھپادے اور آپ اسٹوڈیوز میں اُس پر طوفان مچا دیں ۔الحمد للہ! ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور جتنا جدید علم میرے انتہائی قابل احترام اینکر بھائی آپ نے حاصل کر رکھا ہے ،اتنا یا اُس سے کچھ کم اس ناچیز طالبِ علم نے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ ہم شیشے کے گھر یعنی اسٹوڈیو میں نہیں بیٹھتے ، جہاں سے ہم جس پر چاہیں چاند ماری کریں، جس کی چاہیں عزت سے کھیلیں ،سب کی خبر لیں لیکن خود کسی کو جواب دہ نہ ہوں ۔
محکمۂ موسمیات کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کی اصل مہارت موسم کی پیش گوئی کے حوالے سے ہے ،فلکیات سے اُن کا تعلق ضمنی ہے۔ وہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور وہ جب حساس مواقع پر ٹیلیوژن چینل پر آکر مسلسل پیش گوئی کرتے ہیں، تو لوگوں کا ایک ذہن بنتا ہے اور بعد میں فیصلہ اُس کے برعکس آئے تو لوگ کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیںاور ایک سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات اُن کے پیچھے سرکار کے ایما کی بدگمانی بھی کی جاسکتی ہے۔بعض اوقات موسم کے بارے میں اُن کی پیش گوئیوں کا آپ لوگ خود مذاق اڑاتے ہیں ، اخبارات میں کارٹون چھاپتے ہیں ،لہٰذا اُن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی پیش گوئی سے ہمیں مطلع کریں اور ایسا کرتے بھی ہیں ۔امکانِ رویت کے حوالے سے بعض چاند انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں بعض صورتوں میںماہرین بھی سو فیصد متفق نہیں ہوتے، جہاں امکان ففٹی ففٹی ہو، وہاں احتیاط بہتر ہے ،اس سال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے چاند کی پوزیشن یہی تھی۔
ہمارا اجلاس تو اکثر محکمۂ موسمیات کے ہیڈ کوارٹر میٹ کمپلیکس کراچی ہی میں ہوتا ہے، آپ کو پریشانی اس وقت ہوتی کہ ہمارے فیصلے اور محکمۂ موسمیات کی رپورٹوں میں تضاد ہوتا ۔ہر چاند کے اعلان کے موقع پر میں محکمۂ موسمیات کی آفیشل رپورٹوں کا حوالہ دیتا ہوں اور اس سال بھی عیدالاضحی کے موقع پر حوالہ دیا کہ پاکستان بھر میں محکمۂ موسمیات کے مراکز سے بھی باقاعدہ (Officially) عدمِ رویت کی رپورٹ دی گئی،اس کے باوجود آپ کی پریشانی اور اضطراب ناقابلِ فہم ہے ۔کیایہی میڈیا کی معراج ہے اور یہی ریٹنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے ۔خدارا رحم فرمائیں ،جب آپ بار بار مذہب میں دخل دیتے ہیں اور لوگ احتجاج کرتے ہیں ،تو پھر آپ ہی لوگ اہلِ مذہب پر عدمِ برداشت (Non Tolerant)کا فتویٰ لگاتے ہیں ۔بنیادی طور پر میٹرالوجسٹ فلکیات کے متخَصِّص(Specialised) نہیں ہوتے اوریہ کہنا کہ سو سال یا ہزار سال کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے ،یہ بھی سب کو معلوم ہے۔
جہاں تک علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریات کا تعلق ہے ،اُن سے ہم واقف ہیں اور وہ بھی ہمارے نظریات سے واقف ہیںاور دونوں فریق ایک دوسرے کے دلائل سے بھی واقف ہیں ۔مگر مشکل یہ ہے کہ اِس ملک میں جو مسلمان پائے جاتے ہیں، اس مکاتب فکر کا ایک یادوفیصد بھی علامہ غامدی صاحب کے مذہبی نظریات سے متفق نہیں ہے مگر کیا اِس ملک کے اٹھانوے فیصد مسلمان خَس وخاشاک ہیں کہ آئے روز آپ اُن کا تمسخُر اڑائیں اور غامدی صاحب کو لے کر بیٹھ جائیں تاکہ وہ علماء کی تضحیک اور تجہیل (To consider ignorant)کریں ۔تاہم میں اس حد تک علامہ جاوید احمد غامدی کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنے نظریاتی تفرُّد کے باوجود یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ رویتِ ہلال کے حوالے سے سرکاری اعلان ہی کو تسلیم کیا جائے ۔ ہم نے اس لیے میڈیا پر مختلف موضوعات پر اپنا موقف دینا چھوڑ دیا کہ ہمارے چند جملے صرف مطلع کے طور پر لے لیے جاتے ہیں اور اُس کے بعد بحرِ طویل میں پوری نظم علامہ جاوید غامدی کی نشر کی جاتی ہے ۔سلمان تاثیر صاحب کے قتل کے بعد ایک اہم چینل کےذمہ داران سےمیری میٹنگ کرائی گئی ، میں نے انہیںیہی مشورہ دیا کہ لِلّٰہ! حسّاس مذہبی مسئلوں کو موضوع نہ بنائیں اور نہ ہی آپ مذہب کے مُحقّقین اور متخصِّصین ہیں۔ایک کانفرنس کے موقع پر میں نے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق ،علامہ ساجد نقوی ،علامہ قاضی نیاز حسین نقوی ،پروفیسر ساجد میراور مولاناقاری محمد حنیف جالندھری اور تمام مکاتبِ فکر کے دیگر سرکردہ علماء کی موجودگی میںاِن حضرات سے گزارش کی کہ اپنے نوجوان علماء کو میڈیا پرامامت ،خلافت،طلاقِ ثلاثہ، حلالہ،مُتعہ اور اِن جیسے موضوعات پر مناظروں سے روکیں ،یہ کلاس روم کے اور اکیڈمک موضوعات ہیں ،اِن کا پبلک سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہمارے بعض میڈیا پرسن تومذہب اور اہلِ مذہب کو کوس کر اپنے نفس کی تسکین کا سامان کرلیتے ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ آیا باقی شعبہ ہائے حیات میں پوری قوم کے درمیان مکمل یک جہتی ،وحدتِ فکر اور نظریاتی ہم آہنگی ہے؟۔ ایک دوسرے پراہلِ سیاست کی دشنام اور اتّہام و الزام توپوری قوم ہر روز سرِ شام سے نصف شب تک کسی توقُّف کے بغیر سنتی رہتی ہے ۔سو اہلِ مذہب بھی اِسی معاشرے اور اِسی زمین کے خمیر سے اٹھ کر آتے ہیں، یہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں جو پیرا شوٹ سے اتر کر زمین پر آئی ہو۔
رویت ہلال کے حوالے سے علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریئے پر بارہا لکھ چکا ہوں ۔اُن کے نزدیک ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو‘‘ والی حدیث میں ’’رویت‘‘ علم کے معنی میں ہے۔ لہٰذا اُن کے نزدیک جب سائنسی علم سے قطعی طور پر معلوم ہوجائے کہ چاند پیدا ہوگیا ہے، اگرچہ عملی رویت کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو، تو قمری مہینہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن ہماری فقہ کا اُصول یہ ہے کہ جب تک کسی لفظ کو اُس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو، مَجاز کی طرف نہیں جائیں گے اور رویت کا حقیقی معنی ’’آنکھ سے دیکھنا‘‘ ہے اور علم اُس کا مجازی معنی ہے۔ پس رویت کو حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہے اور پاکستان میں پائے جانے والے تمام مکاتب فکر کی فقہ میں یہی معتبر ہے اور اہلِ پاکستان کے تمام مذہبی مکاتبِ فکر کی غالب ترین اکثریت اسی نظریئے کی حامی ہے۔ سو آپ آزاد ہیں، اپنے نفس کی تسکین کے لئے انہیں جاہل کہہ دیں، دقیانوسی کہہ دیں، گزرے ہوئے وقتوں کے لوگ کہہ دیں ،جس گالی سے آپ کے دل کو تسکین ملے نواز دیں، لیکن آج کی تاریخ تک اِس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے فقہی نظریات یہی ہیں۔


.
تازہ ترین