عمران خاں نے اپنی تحریک کے ’’اے ‘‘ اور ’’بی‘‘ پلان کی ناکامی کے بعد ’’سی ‘‘ پلان کا اعلان کر دیا ہے۔ اس پلان کی کامیابی کے متعلق بھی وہ پُراعتماد نہیں چنانچہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ’’ڈی‘‘ پلان کی دھمکی بھی دے دی، بقول ان کے ’’جسے میاں صاحب برداشت نہیں کرسکیں گے‘‘۔ ایک دُنیا کی نظریں 30نومبر پر لگی ہوئی تھیں جسے عمران فیصلہ کن جنگ کا دن قرار دے رہے تھے لیکن عقلِ سلیم (Good Sense) بروئے کار آئی۔ حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین معاہدے کے نتیجے میں ’’فیصلہ کن جنگ‘‘ کا یہ دن پرامن طور پر اختتام کو پہنچا۔ معاہدے کے مطابق تحریکِ انصاف کو ڈی چوک میں یہ جلسہ رات 12بجے تک ختم کردینا تھا لیکن اس سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی عمران کی تقریر اختتام کو پہنچی اور ’’نئے پاکستان‘‘ کے متوالوں نے پرامن واپسی کی راہ لی۔
عمران خاں نے 30نومبر کو فیصلہ کن بنانے کے لئے کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی تھی، تحریکِ انصاف نے اپنی تمام توانائیاں صرف کر ڈالی تھیں، عمران نے پنجاب کے درجن بھر بڑے شہروں کے علاوہ کراچی اور لاڑکانہ (کے نواح)میں بھی بڑے بڑے جلسے کئے تھے۔ اٹک کے اُس پار تو حکومت بھی اپنی تھی، 14اگست کے بعد جس کے سرکاری وسائل اسلام آبادی دھرنے کے لئے وقف تھے۔ وزیراعلیٰ اپنے سرکاری فرائض کو بھول بھال کر خود کو دھرنے کے لئے وقف کرچکے تھے اور یوں 30نومبر کے فیصلہ کن ہونے کے متعلق عمران کا اعتماد کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہ تھا۔ لیکن 30نومبر کاجلسہ اسلام آباد میں عمران کے گزشتہ جلسوں ہی کی طرح کا ایک جلسہ تھا۔ حاضرین کی تعداد کے لحاظ سے شاید پہلے سے بھی کم ......دو روز قبل عمران کی پریس کانفرنس بھی 30نومبر کے لئے HYPE پیدا کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ تھی لیکن اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں تھی، کسی ثبوت کے بغیر ان ہی پرانے الزامات کی جُگالی، بقول شخصے، کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔
’’سی ‘‘پلان کے مطابق عمران 4دسمبر کو لاہور، 8کو فیصل آباد، 12کو کراچی اور 16دسمبر کو پورا پاکستان بند کردے گا۔ 16دسمبر سقوطِ ڈھاکہ کا دن ہے، قائداعظم کے پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن۔ اب ’’نئے پاکستان‘‘ کے علمبردار کی طرف سے اس روز بچے کھچے پاکستان کو بند کردینے کا اعلان کیامحض اتفاق ہے......
سوئِ اتفاق؟ سی پلان میں لاہور کو بند کرنے کے لئے 4دسمبر کی تاریخ طے کی گئی ہے لیکن یہ تو مینارِ پاکستان پر حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کے دو روزہ اجتماع کا پہلا روز ہوگاجس میں ملک بھر سے قافلے لاہور پہنچ رہے ہوں گے۔ اخباری تجزیوںاور ٹاک شوز میں عمران خاں کی احتجاجی تحریک سے بھرپور ہمدردی کا اظہار کرنے والے شاہ صاحب اِسے عمران کی فرسٹریشن کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، ان کے بقول، دھرنے کی طوالت اور اس کے شرکاء میں کمی کے بعد عمران کے پاس یہی دستیاب آپشن تھا۔ وہ اِسے عمران کے لئے ایک بڑی آزمائش قرار دیتے ہیں ’اگر وہ اس پر پورا نہ اُتر سکے اور ان کے ساتھیوں نے اگست کی طرح اس بار بھی ہوم ورک کرنے کی بجائے محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا تو یہ اندیشہ بے جا نہیں کہ عمران کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا‘‘۔ یقیناً عمران خاں کو بھی اس ’’ہوم ورک‘‘ کی ضرورت اور اہمیت کااحساس ہوگا۔ ’’پلان اے‘‘ میں سول نافرمانی کی کال بری طرح ناکام رہی تھی، بجلی اور گیس کے بلوں کی عدم ادائیگی کے اعلان پر شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید جیسوں نے بھی کان نہیں دھرا تھا۔ بیرونِ ملک سے پیسہ بینکنگ سسٹم کی بجائے ہنڈی کے ذریعے بھجوانے کی اپیل کا نتیجہ بھی الٹ نکلا اور اس دوران بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے پہلے سے زیادہ زرِمبادلہ بھجوایا۔ سرکاری بنکوں سے رقوم نکلوانے کی اپیل بھی ناکام رہی تو کیا اب ’’پلان سی‘‘ میں محض زبانی جمع خرچ کی بجائے طاقت کے استعمال کی حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی......؟تصادم کا فیصلہ ، اور یوں لاشیں حاصل کرنے کی خواہش کی تکمیل؟
29 نومبر کو ٹی وی اسکرینوں پر، وزیراعظم کے حویلیاں کے جلسے کے مناظر بہت سوں کے لئے حیرت کا باعث تھے۔ بنیادی طور پر یہ ہزارہ موٹر وے کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب تھی جو ایک پُرجوش جمِ غفیر کی صورت اختیار کر گئی۔ چار سُو، انسان ہی انسان تھے، ان میں نوجوانوں کی تعداد بھی کم نہ تھی، جوش و جذبے سے معمور نوجوان خون۔ عمران خاں اپنے جلسوں میں عموماً چیلنج کرتے رہتے ہیں، ’’ہمت ہے تو تم بھی ایسا جلسہ کر کے دکھاؤ‘‘ اور 29نومبر کو خود تحریک انصاف کے اپنے صوبے میں کسی اعلان، کسی تیاری کے بغیر اتنا بڑا جلسہ ہوگیا تھا، جسے بعض تجزیہ نگار عمران کے 30نومبر کے جلسے سے بھی بڑا قرار رہے ہیں۔ علاقے میں جس نے بھی نوازشریف کی آمد کی اطلاع پائی، کھنچا چلا آیا۔عمران خاں اپنے جلسوں، کو اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ قرار دے رہے تھے، یہ سلسلہ اس سال 11مئی سے جاری تھا۔ مسلم لیگی ورکرز اور ووٹرز کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی وہ بھی جوابی طاقت کا مظاہرہ چاہتے تھے۔ 14اگست سے شروع ہونے والی دھرنا تحریک کے دوران 25اگست کو حمزہ شہباز کی زیرقیادت ریلی، لاہور میں مسلم لیگ کی سیاسی طاقت کا بھرپور اظہار تھا تب شہر کی بیشتر شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوگیا تھا۔
چیئرنگ کراس کے اطراف میں دور دور تک لوگ ہی لوگ تھے لیکن ظاہر ہے، جوابی جلسوں کی حکمت عملی حکومت کو سوٹ نہیں کرتی ۔ چنانچہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھا ۔ نیازی اور نوانی میں کانٹے کا مقابلہ توقع کے عین مطابق تھا۔ مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے اپنے دونوں دھڑوں کو آزاد چھوڑ دیا تھا۔ ہمیں اصل دلچسپی طاہرالقادری صاحب کے اُمیدوار نذرعباس کہاوڑ کے حوالے سے تھی جس کی الیکشن کمپین کے لئے علامہ صاحب تین دن تک بھکر میں مقیم رہے اس میں ایک جلسۂ عام سے خطاب بھی تھا۔ وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس اور سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضابھی ان کے شانہ بشانہ تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی بھرپور تائید بھی انہیں حاصل تھی کہ عمران خاںکے لئے انعام اللہ نیازی کی جیت ایک بھیانک خواب ہوتی۔ بھکر کو وحدت المسلمین اور پاکستان عوامی تحریک کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ علامہ صاحب کے بقول 17جون کے ’’شہدا منہاج القرآن ‘‘ میں 2 کا تعلق بھکر سے تھا۔ 29 نومبر کی شب ضمنی انتخاب کا نتیجہ مکمل ہوا تو انعام اللہ نیازی اور عامر نواز نوانی میں صرف580 کا فرق تھا۔ نیازی کے 47593 ووٹوں کے مقابلے میں نوانی نے 47013 حاصل کئے تھے۔ علامہ صاحب کے اُمیدوار نذرعباس صرف 13582 ووٹ حاصل کرپائے ۔ 11مئی 2013 کے عام انتخابات میں اس نے انہوں نے قاف لیگ کے ٹکٹ پر 12499ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب علامہ صاحب کا ٹکٹ، وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت اور انعام اللہ نیازی کو ہرانے کی عمران خاں کی شدید خواہش اس کے ووٹوں میں صرف ایک ہزار ووٹ کا اضافہ لائی تھی۔ (ضمانت بھی ضبط ہوگئی)اس پر علامہ صاحب کا ردعمل سامنے نہیں آیا البتہ ان کے نئے دستِ راست سردار آصف احمد علی کا کہنا ہے کہ انہوں نے علامہ صاحب کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہاں سے انعام اللہ نیازی ہی جیتے گا۔ علامہ صاحب کااُمیدوار پہلے بھی یہاں سے دوتین الیکشن لڑ چکا تھا اور اس کی کارکردگی کبھی بھی اچھی نہیں رہی تھی۔