اوسلو کے مرکز میں KARL JOHANS GATEپر واقع گرینڈ ہوٹل کی پارلیمینٹ کی سمت بالکونی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے تقریباً تمام امن نوبل انعام یافتہ شخصیتوں مثلاً صدر اوباما، نیلسن منڈیلا اور میخائیل گوربا چوف نے امن کے جلوس کو اپنا دیدارکرایا ہے۔ 9دسمبر 2014ء کو پاکستان کی باعث فخردختر ملالہ یوسف زئی اور بچوں کے حقوق کے چیمپئن پرکاش ستیارتھی اسی بالکونی سے اوسلو کے پرامن مشعل بردار شہریوں سے اپنے جنون کیلئے خراج تحسین وصول کریں گے۔
دمک رہا تھا وہ پندار ان کے چہروں پر،
دیا ہے اہل جنوں نے جسے جنوں کا خطاب
2014ء امن نوبل کمیٹی کے سربراہ TORBJORN JAGLAND نے ابتدائی پریس کانفرنس کے اعلامئےمیں ملالہ کے بارے میں بتایا کہ ملالہ نے اپنی کم عمری کے باوجود بچیوں کے حق تعلیم کیلئے جرات مندانہ محنت کی۔ اس نے اپنی دلیرانہ جدوجہد سے نوجوانوں کیلئے ایک روشن مثال قائم کردی ہے۔ یہ سب ملالہ نے انتہائی دشوار اور خطرناک حالات میں کیا۔ ملالہ نے اپنی بہادری اورجری اقدام سے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے حقوق کو ایک توانا آواز بخشی ہے۔GOOD WEAVE ’’بہتر بنائی‘‘ تنظیم کے بانی پرکاش ستیارتھی پوری دنیا میں قالین انڈسٹری میں بچوں کے استعمال کے خلاف ایک منفرد اور مضبوط آواز ہیں۔ ستیارتھی کے اس فلسفے کو عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ بچوں سے جبریہ کام لینے کی وجہ سے غربت، جہالت اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔کمیٹی سربراہ کے الفاظ کے مطابق ستیارتھی کے ذاتی جرأت مندانہ اقدام نے مہاتما گاندھی کی روایات کے مطابق پرامن مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے ہمیشہ مالی منافع کیلئے بچوں کے استحصال کو مرکز نگاہ رکھا ہے۔ستیارتھی کا سب سے بڑا کارنامہ بچوں کے حقوق کیلئے اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بین الاقوامی کنونشن کا قیام ہے۔2014 کا امن نوبل انعام ملالہ یوسف زئی اور پرکاش ستیارتھی کو مذہب، وطن اور عمر کے وسیع تر تضاد کے باوجود ایک مشترکہ جہد مسلسل کیلئے دیا گیا ہے۔ یہ انعام ان کی بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف، بچیوں کی تعلیم اور انتہا پسندی کے خلاف کوششوں کو سراہنے کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔ ستیارتھی کی نظر میں یہ تمام ہندوستانیوں اور ان بچوں کیلئے ایک اعزاز ہے جو آج بھی اتنی معاشی اور تیکنیکی ترقی کے باوجود غلامی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ نوبل انعام ملالہ کیلئے ایک انتہا نہیں بلکہ ایک آغاز ہے۔ تمام بچوں کیلئے اسکول کا آغاز۔ ملالہ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں حکومتی سطح پر تمام بچوں کیلئے تعلیم کا پلان بنایا جائے۔ لڑکیوں کے خلاف متعصبانہ رویہ ختم کیا جائے اور بین الاقوامی سطح پر 61 ملین بچوں کیلئے 2015 تک تعلیمی مواقع فراہم کئے جائیں۔ ملالہ کی جدوجہد کو جبر، تشدد اور جان لیوا دھمکیوں سے روکنے کے باوجود 2009ء میں ملالہ BBC سے گل مکئی کے نام سے اپنا پیغام نشر کرتی رہی۔ 15سال کی عمر میں ملالہ یوسف زئی کو شدت پسندوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا لیکن اس حملے کے بعد ملالہ بچیوں کی تعلیم کے یکساں مواقع اور ضرورت کی اور زیادہ مضبوط آواز بن گئی۔ اقوام متحدہ سمیت تمام اہم پلیٹ فارم سے اپنے عظیم مقصد کے پیغام کو عام کرتے ہوئے ایک عالمگیر شہرت حاصل کی اور اپنے پیغام کو اتنی قوت اور توانائی فراہم کردی کہ جس کا طالبان تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ نوبل انعام تو فقط اس آواز کو سراہنے کا ایک اظہار ہے۔ پرکاش ستیارتھی 11جنوری 1954ء کو مدھیا پردیش انڈیا میں پیدا ہوئے۔ 1980 تک ان کی قائم کردہ تنظیم بچہ بچائو اندولن (انقلاب) نے 80ہزار بچوں کو مختلف قسم کی غلامی سے آزاد کرایا ہے۔ تنظیم نے اس بات کا بھی بندوبست کیا ہے کہ ان آزاد کردہ بچوں کو تعلیم اور معاشرے میں بحالی کے مواقع مہیا کئے جائیں اور انہیں معاشی فائدے کیلئے بطور جبریہ مزدور نہ استعمال کیا جائے۔ 1984ء میں پرکاش جبریہ مزدور لبریشن فرنٹ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے۔ 1989ء میں سائوتھ ایشین تنظیم برائے چلڈرن سلیوری کے ساتھ الحاق کیا۔ 1998 میں 140 ممالک کے اشتراک سے بچوں سے جبریہ مشقت کے خلاف گلوبل مارچ کا اہتمام کیا۔ جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بچوں سے جبریہ مشقت کے خلاف کنونشن قائم کیا۔ ستیارتھی بین الاقوامی سطح پر منکسر المزاج مگر بہادر شخصیت تصور کئے جاتے ہیں۔ ستیارتھی کو بے شمار مرتبہ جان کی دھمکی دی گئی مگر ساتھ ساتھ انہیں بے شمار بین الاقوامی انعامات سے بھی نوازا گیا ہے۔ آج ترقی پذیر ممالک میں 60فیصد آبادی 25سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا عالمی سطح پر یہ طے کرلیا جانا چاہئے کہ بچوں کو نوجوانوں کے حقوق کو عزت دی جائے۔ ورنہ متنازع علاقوں میں بچوں کے ساتھ ظلم کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہے گا۔ UNICEF اور ILO جیسے ادارے اور ملالہ اور ستیارتھی جیسی انفرادی قوتیں بچوں کے ساتھ ان مظالم کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ آج دنیا میں 168 ملین بچے جبریہ محنت جیسے ظلم کا شکار ہیں جو 2000کے مقابلے میں 78 ملین کم ہے۔ بچوں کے لئے حقوق کی حفاظت کی ان کوششوں کی وجہ سے قوموں کے درمیان ایک بھائی چارے کی فضا قائم ہوئی ہے جو الفریڈ نوبل کی وصیت کے عین مطابق ہے اور یہی نوبل امن انعام کا معیار بھی۔