• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہر سال سینکڑوں طالبعلم سڑکوں پر دنگا فساد کرتے اور بورڈ کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ دورانِ امتحان غلط ذرائع کا کثرت سے استعمال، سفارشی اور راشی عملے کی تعیناتی، پیشہ ور مافیا کا بورڈ پر غلبہ، بورڈ کی کمزور اور ڈھیلی ڈھالی پالیسیاں نااہل اور رشوت خور کارکنان کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہمارے تعلیمی نظام کے دیوالیہ پن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بورڈ کے نظام کو آئے روز نت نئے تجربات کی بھٹی سے گزار کر مظلوم طالبعلموں سے جو سفاکانہ کھیل کھیلا جاتا ہے اور پھر ان تجربات کی ناکامی پر پشیمان ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے نئے تجربات اور نئے چہیتوں کو نوازنے کے جو جمہوری طریقے رائج کئے جاتے ہیں، اس پر نہ تو کبھی اعلیٰ حکام کو شرمندگی و پشیمانی ہوتی ہے اور نہ ہی اصلاح و احوال کیلئے کوئی ماہرانہ کوشش بروئے کار لائی جاتی ہے بلکہ ناکام تجربات سے سبق سیکھ کر معصوم اور لائق طالبعلموں کی حق تلفی کی تلافی تک نہیں کی جاتی۔ یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ سو آج ہمارا امتحانی نظامِ تعلیم بھی تباہی و بربادی کی انتہائوں پر کھڑا اپنی بے بسی کا ماتم کر رہا ہے۔ اعلیٰ معیار کی تعلیم میں اساتذہ کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اس وقت مطلوبہ اساتذہ کی تعداد کا تقریباً 75 فیصد دستیاب ہیں یعنی فی استاد شاگردوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ غیرتربیت یافتہ اور سفارشی بھرتی اور بھرتی کے وقت اہل اور نااہل کا امتیاز نہ کرنا بھی نظامِ تعلیم کے بہترین اہداف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جس ملک کے نظامِ تعلیم میں استاد کی حیثیت ایک زرخرید غلام کی سی ہو اور اسے غیرتدریسی اُمور میں الجھا کر ذلیل و رسوا کر کے ’’سلام ٹیچر ڈے‘‘ منا کر اسکے زخموں پر نمک چھڑکنے کی شعوری کوشش کی جائے، وہاں نظامِ تعلیم کی بہتری کیلئے امکانات اور استاد سے پیشہ ورانہ استعداد کی سو فیصد توقع رکھنا ہی فضول ہے۔ اساتذہ کا پست معیارِ زندگی، قلیل تنخواہیں، مراعات کے نام پر دی جانیوالی جھوٹی خیرات اور پھر بدلے میں افلاس زدہ، روکھی پھوکی تعلیم و تدریس ہی ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل ہے۔ رہی سہی کسر غیرمربوط اور غیرقومی نصابِ تعلیم نے نکال دی ہے۔ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کو قومی و اسلامی بنانا حکومت ِ وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نصاب کو اسلامی بنانے سے مذہبی تعلیم کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ انگریزوں کے رائج کردہ نظام سے ہم اچھے کلرک تو پیدا کر سکتے ہیں، اچھی ذہنیت کے قابل فخر لوگ پیدا نہیں کر سکتے۔ پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں باقاعدہ ایک سازش کے تحت ملک کو پتھر کے دور اور دورِ جہالت میں دھکیلنے اور ملک کو پسماندہ رکھنے کیلئے نظامِ تعلیم کو بدلنے اور اصلاح و احوال کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی جسکے باعث اچھے ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں آئے دن کمی ہوتی جا رہی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے مال و دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ شعور و آگہی کا وہ درس جو ہمارے اسلاف کا طرۂ امتیاز تھا، ہماری درسگاہیں اس سے خالی ہوتی جا رہی ہیں اور یہ ادارے فحاشی، بے حیائی و بے راہ روی کے مراکز بن کر اربابِ حل و عقد و اختیار کا منہ چڑا رہے ہیں۔ تعلیمی نظام سے بے حسی ہماری قومی ہلاکت کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ اس رِستے ہوئے ناسور کو اسی وقت ختم کیا جا سکتا ہے جب اعلیٰ معیار کے کالجز، سکولز، یونیورسٹیز، میڈیکل کالجز، زرعی یونیورسٹیز اور ٹیکنیکل ووکیشنل ادارے ملک کے کونے کونے میں قائم ہوں، جو عملی طور پر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ بھی کر رہے ہوں۔ وزارتِ تعلیم اور اسکے ذیلی اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن، ظلم و ناانصافی اور قومی آمدنی تعلیمی بجٹ کیلئے مختص رقوم کی غیرمساوی تقسیم بھی نظامِ تعلیم کے اصلاح احوال میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ بالعموم اعلیٰ تعلیم کی طرف زیادہ جھکائو رکھتا ہے حالانکہ اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے بھی پوری کر سکتے ہیں۔ نئے تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ پرانے تعلیمی اداروں میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے جہاں نہ بجلی، نہ پانی، نہ کلاس روم کی مناسب سہولیات، نہ چاردیواری، نہ عملہ، نہ استاد اور نہ کسی قسم کی سکیورٹی ہنگامی اور وقتی نوعیت کی اصلاحات کے بجائے دیرپا اور مستقل بنیادوں پر کی جانیوالی اصلاحات اور منصوبہ جات کی منصوبہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نظامِ تعلیم آج کے دور کا سب سے منافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ تعلیم کے نام پر قائم شدہ یہ مقدس ادارے تعلیمی تجارت کے فروغ میں پیش پیش ہیں۔ یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے نہ صرف طبقاتی تعلیم کے فروغ، نفرت، حسد اور تعصب کے جذبات کو اُبھارنے میں اہم کردار کر رہے ہیں بلکہ گورنمنٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ مادرپدر آزادی اور مغربی تہذیب کی یلغار کی آڑ لیکر نئی تعلیم کے نام پر یہ ادارے نوجوان نسل کو بگاڑنے میں بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں بلکہ حال تو یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی ادارے غربت اور سفید پوش طبقے کی پہچان اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے امیر اور نودولتیے لوگوں کی پہچان بن کر رہ گئے ہیں جہاں فیسوں کے نام پر بھاری بھرکم جرمانے وصول کئے جاتے ہیں اور امراء کے بچے تعلیم کی آڑ میں ہماری ناقص پالیسیوں کا منہ چڑھاتے نظر آتے ہیں۔ نرسری کلاس سے لیکر اعلیٰ تعلیم تک کے تمام مراحل میں اپنی الگ پہچان اور شناخت بنا لیتے ہیں۔ اچھی اور پرکشش مراعات کی صورت میں محنتی اور لائق طلبہ کو مفت تعلیم کے نام پر داخلہ دیکر اپنی کمرشل شاپس کا ریٹ بڑھا کر ہمارے اربابِ اختیار کو وہ گُر سکھانے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں نظامِ تعلیم کے کرتا دھرتا کا دُور کا بھی واسطہ نہیں بلکہ وہ اس سارے تعلیمی دھندے میں باقاعدہ حصہ دار بھی ہیں۔ ہماری تعلیمی پالیسی کا تو یہ عالم ہے کہ 84فیصد سے زائد نمبر لینے والے بچے میڈیکل کالجز میں داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ امتحان دَر امتحان کی بھٹی سے گزار کر ان کی سالوں کی محنت کو مٹی میں ملا کر انہیں داخلے سے محروم کر کے پرائیویٹ کالجز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خادم اعلیٰ کے پاس بھی وہ اختیار نہیں ہے کہ وہ انٹری ٹیسٹ جیسی جبری مشقت کو ختم کر کے لاکھوں بچوں کی دعائیں ہی لے لیں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا نصاب بھی مادر پدر آزاد، جس کا ہماری اسلامی نظریاتی مملکت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ رہی سہی کسر پرائیویٹ اکیڈمی مالکان نے پوری کر دی جہاں سرکاری اداروں کے اچھے اور قابل اساتذہ کو معاشی جبر سے آزادی کا لالچ دیکر ان سے بہترین نتائج لئے جاتے ہیں۔ یہ کیسا نظامِ تعلیم ہے جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ سرکاری اداروں کے تنخواہ دار ملازم ہو کر 30 فیصد سے بھی کم رزلٹ دیں اور انہی اساتذہ کی ذہانتوں کے کس بل نکال کر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان 100 فیصد رزلٹ کو یقینی بنا کر کروڑوں کی دیہاڑی لگائیں اور آپ کے ملک کے قاعدے قانون اور تمام ایکٹ اس ننگے جرم پر خاموش بلکہ چشم پوشی کریں اور کوئی غریب کا ذہین بچہ ان اداروں میں داخل ہونے کی جسارت تو دُور کی بات، تصور بھی نہ کر سکے۔ ایسے دستور کو صبح بے نور کو بقول خادم اعلیٰ ’’میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘‘۔ تین حصوں میں بٹے ہوئے اس نظامِ تعلیم نے ہمیں اپنے ہی ملک میں تین طرح کے طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں تعلیمی پالیسیاں بننے سے پہلے ہی دم توڑ دیتی ہیں اور سیاسی مصلحتوں اور گزشتہ حکومتوں کے کھاتوں میں ڈال کر ڈبوں میں بند کر دی جاتی ہیں۔ آزادی کے 67 سالوں کے بعد بھی ہمیں اپنا نصاب تعلیم مرتب کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ملک دولخت ہو گیا، آئے روز ہم نت نئے جانکاہ حادثوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں مگر بے حسی کی انتہا ہے کہ ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں۔ ہم آج بھی تعلیمی اداروں کو اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے شرم محسوس نہیں کرتے، قومی سانحات پر اظہارِ افسوس کرنے اور اپنی غلطیوں و کوتاہیوں کی تلافی کرنے کی بجائے ہم مکاری اور چالاکی کیساتھ انہیں کیش کرانے کے نت نئے ڈھنگ ایجاد کر کے سرکاری اداروں پر اپنا جبری سیاسی تسلط اور ذاتی جاگیر سمجھنے کی غیراخلاقی حرکات کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم ہر شہری کا پیدائشی حق ہے اور ہر شہری کو باقاعدہ طریقے سے اس کا یہ پیدائشی حق دیکر ہی ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل نکال کر اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی ترقی کا ہدف پورا کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین