• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سےپیوستہ)
جہاں تک دیوانی مقدمات کا معاملہ ہے تو وہاں بھی قانونی مو شگافیوں کی وجہ سے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ اشرافیہ کی اپنی کالونیوں کیلئے صاف و شفاف قانون ہے جبکہ عام آدمی کیلئے ایسا قانون کہ دادا کیس دائر کرے اورپوتا اسکا فیصلہ وصول کرے اور پھر اس پر بھی حکم امتناعی آ جائے۔ آپ حیران ہونگے کہ ملک بھر کے بڑے شہروںمیں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹیز دہائیوں سے قائم ہیں اور ان میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں کی مالیت کے پلاٹوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے۔ ڈی ایچ اے میں اب تک قطعی طور پر کوئی ایک بھی پلاٹ کے فراڈ کی خبر نہیں آئی اور نہ ہی کسی نے کوئی متنازع پلاٹ خریدا ہے‘ نہ ہی کبھی یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ خالی پلاٹ پرقبضہ کس کا ہے کیونکہ ہر شخص کو یہ پتہ ہے کہ ان کالونیوں میں پلاٹوں کی خرید و فروخت میں دھوکہ اور فراڈ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ ایسا اسلئے نہیں ہے کہ وہاں بوقت ِ خرید و فروخت بیچنے والا اور خرید نے والا دونوںخود اپنے اپنے قومی شناختی کارڈزکے ہمراہ اتھارٹی کے سامنے پیش ہو تے ہیں اور اتھارٹی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا اسکے روبرو پیش ہیں اور فروخت کنندہ ہی اصل مالک ہے‘ جس نے اتھارٹی کے سامنے جملہ رقم خریدار سے وصول کر لی ہے اور اس تمام کارروائی کی ویڈیو فلم بنتی ہے جو ریکارڈ کا حصہ ہوتی ہے جو دونوں فریقین کو فراہم کی جاتی ہے۔ ڈیفنس کے علاوہ دیگر تمام کالونیوں اور سکیموں کے ساکنان اپنی جائیدادوں کی خرید و فروخت اور قبضہ وغیرہ کے معاملات میں ایسے قانون پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے اگر ان کی جائیدادپر کوئی ناجائز قبضہ کر لے اور اس معاملہ میں سول کورٹ حکم امتناعی جاری کر دے تو وہ پراپرٹی پھر ان کی نہیں رہتی۔ ناجائز قبضہ، مختار نامہ، اقرار نامہ، مختارِ عام، مختارِ خاص، ابطال نامہ، ہِبہ ،بیعہ نامہ ،حق شفہ، مشترکہ کھاتہ، انتقال اور رجسٹری یہ چند ایک ایسے قانونی چکر ہیںجن میں پوری قوم اُلجھی ہوئی ہے جبکہ اشرافیہ اس گورکھ دھندے سے بالکل مبّرا ہے۔ کیا حکمران ڈی ایچ اے جیسا قانون پورے ملک میں زرعی اور رہائشی زمین کی خریدوفروخت کیلئے لاگو نہیں کرا سکتے تاکہ ملک کے باقی مظلوم عوام کی بھی قبضہ مافیا سے جان چھوٹ سکے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جوڈیشری کے بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کیا جاتا اور ایڈہاک اِزم کو ختم کیا جاتا اور کوئی سپیشل کورٹس نہ بنتیں لیکن باوجوہ اسکے ایسا نہ ہو سکا۔ اب ملک میں محض چند ایک فوجی عدالتیں کیوں؟ کیوں نہ ہر ضلع کی سطح پر چار یا پانچ یا حسب ِ ضرورت اس سے بھی زیادہ فوجی عدالتیں قائم کر دی جائیں جو روزانہ کی بنیاد پرنہ صرف دہشت گردی کے سنگین مقدمات کی سماعت جیلوں میں ہی کریں بلکہ ان تمام کیسز کا فیصلہ بھی ٹھوس شہادتوں کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایسے سنگین مقدمات کی سماعت جیلوں میں کرنے سے سکیورٹی کے معاملات سے بھی جان چھوٹ جائیگی اور وقت کا ضیاع بھی نہیں ہو گا۔ مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو اور بڑے سے بڑے مقدمہ کا چالان پولیس 14روز کے اندر عدالت میں پیش کرے اور اس کا فیصلہ بھی ایک ماہ کے اندر اندر ہی ہو جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکمران بھی ایسا ہی چاہتے ہیں؟ قتل اور ڈکیتی میں جن ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی‘ انہیں ابھی تک پھانسیاں نہیں دی جا رہیں جس کی وجہ سے جیلیں ایسے مجرمان سے بھری ہوئی ہیں۔ اگر ان ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں روزانہ کی بنیاد پر چلائے جائیں تو جیلوں سے رش بھی کم ہو گااور جیلوں میں صرف مجرمان ہی سزا بھگتنے کیلئے رہ جائیں گے۔
عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں انصاف نہیں ہوتا بلکہ وہ تو صرف سزا دینے کیلئے ہوتی ہیں۔ عوام کو یقین بھی دلایا گیا ہے کہ فوج کے وہ افسران جوکہ فوجی جوانوں اورافسروں کا کورٹ مارشل کرتے ہوئے تمام عدالتی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں اور انصاف بھی مہیا کرتے ہیں‘ ایسے ہی فوجی افسران ان مقدمات کو بھی سنیں گے اور عدالت کی تمام کاروائیوں کو قانون کے مطابق چلائیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اکثر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے پاس لاکھوں مقدمات زیرسماعت ہیں اورججو ں کی کمی کی وجہ سے ان کی سماعت مکمل نہیں ہو پا رہی اور زیرسماعت مقدمات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے‘ ایسے میں فوجی عدالتوں کا قیام کسی بھی انداز میںکیا عدلیہ میں ججو ں کے اضافہ کا باعث نہیں بن رہا؟ ہمارا معاشرہ لاقانونیت میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کینسر زدہ ہو چکا ہے جس کیلئے ’’میجر سرجری درکار ہے‘‘ جو موجودہ فوجی عدالتوں کے قیام کی بدولت ہی ممکن ہے۔ قوی امید ہے کہ متذکرہ فوجی عدالتیں قانون کے مطابق مقرر ہ مدت میں انہیں دئیے گئے ٹارگٹس کو حاصل کر لیں گی اور عوام کے ساتھ ساتھ وکلاء کے تعاون سے معاشرے کو اس کینسر سے پاک کر کے واپس اپنے محاذوں پر چلی جائیں گی۔ اگر ایسا آئیڈیل اور عوام کی اُمنگوں اور موجودہ دور کے جدید تقاضوں کے مطابق قانون بنا ہوتا تو پھر کبھی بھی ایسی فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہ پڑتی۔ حیران کن بات تو یہ ہے کہ سینئر وکلاء اور اعلیٰ عدالتیں ایسی فوجی عدالتوں کے حق میں نظر نہیں آتیں لیکن کوئی ٹھوس قابل عمل اور فوری انصاف کیلئے اپنی رائے دینے کیلئے بھی تیار نہیں۔ وکلاء کو ایسے سانحہ کے بعد تو اپنے مفادات کی بجائے قوم کے مفادات کو ترجیح دینی چاہئے تھی اور اعلیٰ عدلیہ سے ملکر ایسے ٹھوس قوانین بنانے کی ضرورت تھی جس سے دہشت گردوں کو فوری عبرتناک سزا ملتی تاکہ اس قسم کے سنگین واقعات کا اعادہ نہ ہوتا۔
تازہ ترین