1917ء میں سرخ پوش لیڈر اورخدائی خدمتگارتحریک کے بانی باچا خان کے گھر جنم لینے والے ولی خان نے1933میں جب دہرہ دون سے سینئر کیمرج کی ڈگری حاصل کی تواعلیٰ تعلیم کاحصول اس وقت خواہش بن کر ہی رہ گیا جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ بصارت خاصی حد تک خراب ہوچکی ہے۔تعلیم کاسلسلہ جاری رکھنے سے زیادہ خرابی ہوسکتی ہے۔چنانچہ مایوسی کے عالم میں خان صاحب یوپی سے اپنے آبائی گاؤں اتمان زئی واپس آگئے جہاں انہیں اس لئے بھی تمام ذمہ داریاں نبھانی پڑیں کیونکہ ان کے والد باچا خان جیل میں تھے تاہم انہوں نے اس امرپراطمینان کااظہارکیاکہ صاحبزادے نے ان کی عدم موجودگی میں نہ صرف ان کی رہائی کیلئے ایک مؤثر تحریک چلائی بلکہ گاؤں میں تمام معاملات بھی سنبھال لئےانہوں نے جیل سے اپنے صاحبزادے ولی خان کوخط بھی تحریرکیا جس میں گھر کی ذمہ داریاں نبھانےپر اظہار مسرت کیاگیا تھا 1938میں جب مہاتما گاندھی نے صوبہ سرحد کادورہ کیاتواپنے والد باچا خان کے حکم پرولی خان نے مہاتما گاندھی کی گاڑی کے ڈرائیور کے فرائض انجام دئیے اور صوبہ سرحد کے طویل اورتفصیلی دورے میں ان کےساتھ رہے تاہم ولی خان کی باقاعدہ سیاست کاآغاز 1942میں اس وقت ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے آبائی گاوں میں منعقدہ تقریب میںخدائی خدمت گار تحریک کی رکنیت کاحلف اٹھایا۔ ان سے حلف لینے والے جنرل زیارتی کاکاخیل تھے جس کے بعدپرجوش اورپرعزم نوجوان ولی خان کی پہلی تنظیمی ذمہ داری جومرکزی عہدیداران کی طرف سے انہیں تفویض کی گئی وہ یہ تھی کہ وہ صوبہ سرحدکے علاقے کرک اورکوہاٹ کے علاقوں میںجائیں اوروہاں برطانوی راج کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کریں۔ یہاں سے خان عبدالولی خان کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز ہوتا ہے....اورپھر اس کااختتام کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ 1990کے انتخابات میںعوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان کو جے یوآئی اور پی پی پی کے ایک مشترکہ امیدوار مولاناحسن جان ان کی آبائی نشست سے ہی شکست دے دیتے ہیں۔ولی خان اس شکست کوکھلے دل سے نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ پارلیمانی سیاست سے ہی ریٹائر منٹ کااعلان کردیتےہیں اورپارٹی کے رہبر کے طورپر تنظیم کےمنشورمیںقطع و برید کا کام شروع کردیتے ہیں۔ اس دوران اپنی کتابوں کی تصنیف پربھی کام جاری رکھتے ہیں 1998میں وہ عوامی نیشنل پارٹی کی ایک بڑی ریلی کی قیادت کرتے نظر آتےہیں جوصوبہ سرحد میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف نکالی گئی تھی یہ غالباًخان صاحب کی عوامی سطح کی آخری سیاسی مصروفیت تھی اور2002میں غالباََ وہ کسی مختلف حوالے سے آخری مرتبہ ٹی وی پر دیکھے گئے۔ طبیعت مسلسل ناساز رہنے کے بعد مارچ2005میں ان کی صحت زیادہ خراب ہونے لگی اور 26جنوری 2006کی صبح سات بجے وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
1942سے 2006تک خان صاحب کی ہنگامہ خیز زندگی کے نشیب وفراز اوراہم واقعات کامختصر تذکرہ بھی محض کالموںاورمضامین میںنہیں کیاجاسکتا بلاشبہ انہیں سمجھنے ،جاننے اورسمیٹنے کےلئے کتابیں درکار ہیں۔البتہ کچھ باتوں اور حوالوں سے ان کی برسی کے دنوں میں ان کی یادوں کو تازہ کیا جا سکتا ہے۔
EUSTON ROADپر واقع برٹش لائبریری ازلنگٹن میں برادر خورد محمد طارق کے گھر سے بذریعہ ٹیوب 8 منٹ اور پیدل 20منٹ کی مسافت پرہے چونکہ خان صاحب سے ملاقات کا وقت 10 بجے طے ہوا تھا اس لئے علی الصبح والدہ کے ہاتھ کے بنے ہوئے دیسی ناشتے سے فراغت کے بعد وقت بھی خاصا تھا اور واک کی ضرورت بھی۔ اس لئے 9 بجے گھر سے پیدل ہی وہاں پہنچنے کا قصد کیا یہ 90ء کی دہائی کا واقعہ ہے۔ چند روز قبل ہی جنگ لندن میں خان صاحب کے لندن پہنچنے کی خبر شائع ہوئی تھی۔ سوچا پاکستان میں تو ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ذرا لندن کی آزاد فضاؤں میں خان صاحب سے مکالمے کا مزہ کچھ الگ ہی ہوگا۔ علی کیانی (چیف رپورٹر جنگ لندن) کو فون کیا انہوںنے رہنمائی کی اورخان صاحب سے رابطہ ہوگیا، ملاقات کی خواہش کی تو روایتی شفقت سے کہا ، میں روزانہ برٹش لائبریری جاتا ہوں، ادھر ہی آجانا ملاقات ہوجائے گی۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے برٹش لائبریری کے سامنے موجود تھا۔ دنیا کے ہر موضوع پر لکھی گئی کتابوں جن کی تعداد اُس وقت بھی 14 ملین کے لگ بھگ بتائی جاتی تھی۔ وہاں موجود ہیں.... علم کے اس عظیم خزینے کو خود میں سمیٹے اس عمارت کی عظمت اور شکوہ ایک عجیب سا احساس پیدا کرتا ہے جس میں اپنی کم علمی بلکہ لاعلمی بھی شامل تھی.... یہ ایک چمکتی دمکتی صبح تھی جس کی تمازت جسم کو پرسکون رکھ رہی تھی۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد لائبریری کے باہر سیڑھیوں پر مرکزی دروازہ کھلنے کے انتظار میں موجود تھی، جن میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں، بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل تھے عمروں میں فرق تھا۔ لیکن جاننے کی جستجو اور علم کی طلب کی مماثلت تمام چہروں پر تھی۔ 30منٹ ایسے ہی مشاہدے اور محسوسات میں گزر گئے ٹھیک دس بجے لائبریری کے مرکزی دروازے کھلنے شروع ہوئے تو سیڑھیوں میںگٹھڑیاں بنے بیٹھے لوگ بھی کھلنے لگے۔ خان صاحب کا دراز قد اور سفید بال انہیں لوگوں میں قدرے نمایاں کرتے ہیں۔
لیکن وہ نظر نہ آئے۔ساتھ ہی موجود ایک چہرے سے کتاب ہٹی تو خان صاحب کا چہرہ نظر آیا۔ وہی شفقت اور اپنائیت کا مخصوص انداز ....تو کب آیا۔ تیرا لائبریری کا کارڈ بنا ہوا ہے۔ میں نے کہا نہیں بابا۔ (اسفند یار ولی خان کے سارے قریبی دوست اور ساتھی ان کی طرح ہی خان عبدالولی خان کو بابا کہہ کر ہی پکارتے ہیں) انہوں نے میر ا ہاتھ پکڑا اورسیڑھیوں کے دوسرےکونے پربیٹھ گئے.....وہ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ جب بھی لندن میں ہوں صبح لائبریری کھلنے سے پہلے یہاں سیڑھیوں پر بیٹھ کر کتاب پڑھتے ہیں اورپھرلائبریری بند ہونے سے آدھا گھنٹہ قبل تک لائبریری میں مطالعہ کرتے ہیں۔ لائبریری میں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ بصری مواد بھی موجود ہے۔ دنیا بھر کے مصنفین کی کتابوں اور ان کے بارے میں پورا ریکارڈ موجود ہے۔ اتوار کو اس لئے گھر پر ہوتا ہوں کیونکہ لائبریری بند ہوتی ہے۔ پاکستان جانے سے دو روز قبل لائبریری سے ناطہ ٹوٹتا ہے۔ خان صاحب لائبریری میں موجود علمی خزینے کی باتیں کئے جارہے تھے۔اپنے پسندیدہ عالمی سیاستدانوں ،حکمرانوں، مزاحمتی اور نظریاتی تحریکوں کا پس منظر،طاقتور شخصیات کے عروج و زوال کی داستانیں.... انہوں نے 30 منٹ تک ایک استاد کی طرح طالبعلم کو بہت کچھ بتایا سمجھایا اور پھرسیڑھیوں سے اٹھے۔ شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا .... جب بھی ملنا ہو تو یہیں آجانا یہ کہہ کر خان صاحب لائبریری میں چلے گئے۔ برٹش لائبریری کی سیڑھیوں پر ایک ماہ کے دوران خان صاحب سے چار ملاقاتیں ہوئیں خان صاحب کا موضوع لائبریری میں موجود کتابوں اور ان کے زیر مطالعہ شخصیات کے حوالے سے ہی ہوتا اس دوران ایک موقع پر ان سے کچھ سیاسی گفتگو کی اور اگلے روز وہ جنگ لندن میں شائع ہوئی اور پھر پاکستان میں بھی اخبارات نےانہیں’’ لفٹ‘‘ کیا تو خان صاحب نے اسے پسند نہیں کیا۔ محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ میں تو یہاں گرمیوں میں صرف پڑھنے کیلئے آتا ہوں.....
قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں خان صاحب باقاعدگی سے شرکت کرتے تھےاور پوری طرح سے تیاری کر کے ایوان میں آتے ۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ان کی تقریر میں مداخلت کی تو اسپیکر بھی اجازت نہیں دیتے تھے .....لیکن ایوان میں یہ ان کے احترام کا ہی اظہار اورسینئر پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے ان کی سیاسی خدمات کا اعتراف تھا کہ جب وہ ایوان میں بحیثیت رکن اسمبلی بھی بات کرتے تو ان کے مخالفین بھی مداخلت نہ کرتے اور یہ بھی ریکارڈ کی بات ہے کہ انہوں نے خود پرلگائے گئے الزامات کے باوجود کسی بھی رکن یا سیاست دان پر ذاتی حوالےسے کبھی کوئی تنقید نہیں کی۔ ان کی سادہ طرز زندگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہےکہ اسمبلی کے اجلاس میں اسلام آباد آتے تو اس وقت کے بے سروسامان ایم این اے ہاسٹل میں قیام کرتے ہاسٹل کے کچن کا کھانا کھاتے اور ادائیگی ہمیشہ بروقت اور خودکرتے۔ علی الصبح اٹھنا اور بی بی سی کی خبریں سننا ان کا معمول ہوتا تھا اور اس مقصد کیلئے وہ ایک چھوٹا ٹرانسسٹر ریڈیو بھی اپنے پاس رکھتے تھے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا میں آتے تو ایک خاص گوشے میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے۔ میڈیا کے لوگوں سے ذاتی تعلق اور اعتماد کے رشتے کے باعث کھل کر باتیں کرتے لیکن کبھی بھی کسی گفتگو کو ’’آف دی ریکارڈ ‘‘قرار نہیں دیا۔صحافی دوست ازخود ہمیشہ ان کے اعتماد پر پورے اترتے (یہ صرف پرنٹ میڈیا کا دور تھابرقی صحافت کی بھرمار ابھی شروع نہیں ہوئی تھی)راولپنڈی میں اپنی جماعت کی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کے گھر قیام کرتے جنہوں نے گھر کا ایک کمرہ اپنے قائد کیلئے مختص کر رکھا تھاہر چند کہ خان صاحب سال میں ایک آدھ بار ہی وہاں آتے تھے .....لیکن قائد سے عقیدت کے طور پر وہاں کسی اور کو قیام کی اجازت نہیں تھی۔
باچا خان اورخان عبدالولی خان کی برسی اب مشترکہ طور پر منائی جاتی ہےسرخ پوش لیڈر باچا خان جنہیں سرحدی گاندھی کا خطاب بھی دیا گیاان کے حوالے سے محض ایک تذکرہ ....خان عبدالولی خان تو اپنی سرزمین اور اپنے قدیمی گھر ولی باغ کے احاطے میں آسودہ خاک ہیںجہاں ان کیلئے فاتحہ خوانی کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہےلیکن باچا خان کو ان کی خواہش اور وصیت کے پیش نظر افغانستان کی سرزمین جلال آباد میں سپرد خاک کیا گیا۔ 80ء کی دہائی میں صوبہ ننگرہار کے گورنر سے ملاقات کیلئے جلال آباد جانا ہواتو باچا کی آخری آرام گاہ بھی گئے ہر چند کہ ان کا مدفن ایک وسیع و عریض احاطے میں تھا.... لیکن وہاں کی صورتحال اور ویرانی دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔ برادرم نصرت جاوید نے وہاں پر بلند آواز میں فاتحہ خوانی کی اور مرحوم کے درجات کی بلندی کی دعا کی جس سے اطراف کے لوگ متوجہ ہوئے اور نصرت جاوید اپنا پیغام ان تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے..... لیکن ان کی برسی کے موقع پر پھر وہاں کے افسوس ناک منظر یاد آئے تو یہ دکھ پھر تازہ ہو گیا.....
نوٹ :؍ بعض جگہ خان عبدالولی خان کا سن پیدائش 1915ء بھی تحریر ہے۔