امریکی صدر اوباما کا دورہ بھارت ختم ہوا۔ دورے کے دوران بیشترمواقع پرجہاں بھارتی وزیراعظم کے ’’غیرسفارتی طرزعمل‘‘کوبھارت میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے ، ذاتی سطح پر نمود و نمائش کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ امریکی صدر کے دورے سے جو کچھ حاصل ہواوہ اتنا کچھ نہیں ہے جس کی اتنی تشہیر کی جا رہی ہے۔ پرانے معاملات اور معاہدوں پر یقین دہانیاں حاصل کرنا قابل ذکر کامیابی نہیں۔ وہیں پاکستان میں بھی امریکی صدر کے دورہ بھارت پر بعض حلقے اور طبقے ناراضی کے عالم میں صدر اوباما کے بھارت کے دورے کو پاکستان کی سیاسی اور سفارتی ناکامی سےتعبیر کر رہےہیں۔وزارت خارجہ کی نااہلی قرار دے رہے ہیں اور خارجہ پالیسی کی سمت تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی..... جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر دوسری مرتبہ بھارت کا دورہ کر رہے ہیں لیکن پاکستان آمد کو انہوں نے درخوراعتنا نہ سمجھا۔ اس حوالے سے تنقید کرنے والے شاید یہ فراموش کر بیٹھے ہیںکہ.....قیام پاکستان کے بعد سے اب تک پانچ امریکی صدور نے پاکستان کا دورہ کیا ہےاور قابل غور ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان پانچوں امریکی صدور نے اس وقت پاکستان کا دورہ کیا جب یہاں اقتدار فوجی حکمرانوں کے پاس تھا۔ دسمبر 1959 میں اور دسمبر 1967 میں دو امریکی صدور پاکستان کے دورے پر کراچی آئے اور انہوں نے اس وقت کے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان سے ملاقاتیں کیں۔اگست 1969 میں رچرڈ نکسن پاکستان کے دورے پر آئے اور انہوں نے صدر یحییٰ خان سے ملاقات کی مارچ 2000 میں بل کلنٹن پاکستان آئے تو ہر چند کہ اس وقت ایوان صدر کے علامتی مکین رفیق تارڑ صدر کی حیثیت سے وہاں موجود تھے لیکن چیف ایگزیکٹو کے طور پر پرویز مشرف اقتدار سنبھال چکے تھے اور پاکستان کے دورے پر آنے والے آخر ی صدر جارج ڈبلیو بش تھے جنہوں نے مارچ 2006 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اپنے پاکستانی ہم منصب صدر جنرل(ر)پرویز مشرف سے اسلام آباد میں ملاقات کی جنھوں نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا تھا۔ اب ناقدین سوچ لیں کیا وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ امریکی صدر جلد پاکستان کے دورے پر آئیں؟ اس لئے بات یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ سپر پاور کے سربراہ کی بھارت کے دوسری مرتبہ دورے پر پاکستان کو فکر مندی سے صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے اور محض پاکستان پرہی کیا موقوف جنوبی ایشیاء کے سب سے اہم ملک چین کے علاوہ روس بھی اس بارے میں ملفوف الفاظ میں ہی سہی سفارتی زبان میں اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کر چکا ہے تاہم اس حوالے سے ہمارے ناقدین حکومت کو رہنمائی اور مشورے تو دے سکتے ہیں لیکن اسے حکومتی یا سفارتی ناکامی قرار دینا شاید مناسب نہ ہو۔ ملک کے داخلی حالات خارجہ سطح پر مختلف انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ بھارت میں نئی حکومت قائم ہوئے چند ماہ ہوئے ہیں اور وہاں امریکہ اور چین جیسے بڑے ممالک کے سربراہان دورے کرچکے ہیں جبکہ پاکستان میں نئی حکومت کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہےسوائے افغان صدر کے اور کوئی سربراہ مملکت ابھی تک پاکستان کے دورے پر کیوں نہیں آیا، اس کی وجہ خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں بلکہ پاکستان کے داخلی حالات بالخصوص امن و امان کا مسئلہ اور غیر یقینی صورتحال ہے۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ گزشتہ ماہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور اسلام آباد میں ہی موجود تھے لیکن طے شدہ شیڈول کے باوجود وہ آرمی پبلک اسکول کا دورہ محض سیکورٹی کلیئرنس کے باعث نہ کر سکے۔ جن حالات میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان آنے کےلئے تیار نہیں ہم ان حالات میں یہ گلہ کرتے ہیں کہ خارجہ پالیسی کی ناکامی کے باعث امریکی صدر پاکستان کے دورے پر نہیں آرہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے دورہ بھارت سے قبل وزیر اعظم نواز شریف کو فون کر کے اپنے دورہ بھارت کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا۔ کیونکہ امریکی صدر کے غیر ملکی دورے میں سیکورٹی کا مسئلہ تو سرفہرست ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اہم عوامل پیش نظر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالے سے تو پاکستان کی سیاسی قیادت اور سفارت کاری کو ناکام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ بھارت میں امریکی صدر کا یہ کہنا کہ، ’’امریکہ کو افغانستان میں ایک قابل اعتماد دوست مل گیا ہے۔‘‘ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئے ایک لمحہ فکریہ ضرور ہے ۔ پاکستان جو لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ کئی سالوں سے اپنی تہذیب ، ثقافت ،معیشت اور کافی حد تک امن و امان کی قیمت پر اٹھائے ہوئے ہے۔افغانستان سے تعلقات کی بھی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔امریکی صدر کے یہ ریمارکس جن میں افغانستان میں بھارت کو قابل اعتماد دوست قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی یہ خواہش تو پوری ہوگئی کہ صدر اوباما نے ان کی اس بات سے اتفاق کر لیا کہ واشنگٹن اور دہلی کے درمیان ایسی’’ہاٹ لائن‘‘ قائم ہونی چاہئے جس کے ایک طرف اوباما اور دوسری طرف وہ خود ہوں اس کے علاوہ بھی کئی ایسی خواہشیں ہوں گی جوپوری تو ضرور ہوئی ہوں گی۔ لیکن ان کی تفصیل منظر عام پر نہیں آئی۔ اور اسی طرح بعض خواہشیں حسرت بھی بن گئی ہوں گی، مثلاً یہ جاننے کے باوجود کہ مشعل اوباما ساڑھی جیسے پہناوے سے نامانوس ہی نہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق وہ اس مشرقی لباس کے بارے میں پسندیدگی کے جذبات نہیں رکھتیں لیکن پھر بھی مودی صاحب نے گجرات میں اپنے حلقہ نیابت کے شہر ’’ورانسی‘‘ میں جو بنارسی ساڑھیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے وہاں کے ماہر کاریگروں سے امریکی خاتون اول کو تحفے میں دینے کیلئے سو ساڑھیاں خصوصی طور پر تیار کرائیں بتایا جاتا ہے کہ مودی جی نے ذاتی دلچسپی لیکر خصوصی ہدایات کے ساتھ ان ساڑھیوں کی تیاری کا حکم دیا تھا جن کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ انہیں قیمتی بنانے کیلئے خالص سونے اور چاندی کے دھاگوںسے تیار کیا گیا تھا۔یہ تمام ساڑھیاں دستی (Hand Made) کھڈیوں پر تیار کی گئیں اور سینکڑوں مشاق ہنر مندوں نے ان کی تیاری کا کام تین ماہ قبل ہی شروع کر دیا تھا۔وارنسی میں ساڑھیاں بنانے والے کاریگروں کی تعداد چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے اور مشعل اوباما کو دی جانے والی ساڑھیوں کی تیاری میں ہنر مندوں کا انتخاب ان چالیس ہزار کاریگروں میں سے ہوا تھا جن میں زیادہ تعداد مسلمان ہنرمندوں کی تھی ایک ساڑھی پر بھارتی کرنسی کے مطابق ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔مودی جی کی خواہش تھی کہ دہلی میں اپنے اعزاز میں ہونے والی ایک ثقافتی تقریب میں جب امریکی خاتون اول تحفے میں دی گئی یہ ساڑھی پہن کر آئیں گی تو صدیوں پرانے شہر وارنسی کا تعارف اس کی مقبول ترین صنعت (ساڑھی) کے حوالے سے دنیا بھر میں ہوگا اور مودی جی کی اس حوالے سے بھی واہ واہ ہوجائیگی ۔ لیکن
یوں نہ تھا… میں نے فقط چاہا تھا …یوں ہوجائے
کوشش اور خواہش کے باوجود خاتون اول نے مودی جی کے تحفے کی وہ پذیرائی نہیں کی جس کی وہ توقع کر رہے تھے پورے دورے کے دوران کہیں بھی وہ مودی جی کے تحفے میں لپٹی سمٹی نظر نہیں آئیں۔ خود مودی جی نے بھی صدر اوباما کے دورے کے موقع پر اپنی خواہشیں خو ب خوب پوری کیں دہلی میں ان سے ملاقات کے لئے خصوصی طور پر تیار کیا گیا 10 لاکھ روپے مالیت کا ایک سوٹ بھی زیب تن کیا جس پر فنکارانہ انداز سے ان کے نام کی کڑھائی کی گئی تھی۔ بظاہر یہ نیلے رنگ کا عام دھاری دار سوٹ لگ رہا تھا۔ لیکن یہ دھاریاں درحقیقت بار بار انگریزی میں لکھا ہوا ان کا نام تھا۔ جو یقیناً ہزاروں مرتبہ لکھا ہوا ہوگا۔ امریکی صدر کے سواگت کےلئے مودی جی پروٹوکول کو نظر انداز کرتے ہوئے خود ائرپورٹ پہنچ گئے بلکہ سفارتی تقاضوں کو بھی بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے پرجوش انداز میں بغلگیر ہوگئے اور ان کی آمد کے پہلے منظر میں ہی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے سربراہ سے ان کے کتنے بے تکلفانہ مراسم ہیں ، اور پھر یہ سلسلہ صدر اوباما کی وطن واپسی تک جاری رہا۔
اس دوران وزیراعظم ہاؤس میں اوباما سے ون آن ون ملاقات میں چہل قدمی اور ان کو چائے بنا کر پیش کرنے کے مناظر سے بھی دنیا کوشاید کچھ ایسا ہی پیغام دینا مقصود تھا۔ پھر مشترکہ پریس کانفرنس میں مودی جی نے جس انداز اور جن الفاظ میں صدراوباما سے اپنا ذاتی تعلق دوستی اور بے تکلفی ظاہر کرنے کیلئے جوالفاظ استعمال کئے اور جس ’’باڈی لینگوئج‘‘ کا مظاہرہ کیا اس سے بھی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بھارتی اور امریکی میڈیا کی موجودگی میں ان کی وساطت سے امریکی صدر سے اپنے اس ’’دوستانہ تعلق کی دھاک‘‘ دنیا بھر میں بٹھانا چاہتے ہیں۔ غرض بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران ہر ایسے مرحلے پر جب وہ اپنے مہمان کے ساتھ عوامی منظر پر ہوں یہ شعوری کوشش کی کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کر سکیں کہ انہوں نے محض چند ماہ میں دنیا کے سپر پاور کے سربراہ سے بے تکلفی کا ایک ایسا تعلق اور دوستی کا رشتہ قائم کر لیا ہے جو ماضی میں کسی بھارتی وزیراعظم کو کم ہی نصیب ہوا ہو۔ اب اسے گجرات کے ایک محنت کش مکین کا جو ریلوے اسٹیشن سے اپنے صوبے کا وزیراعلیٰ اور پھر اپنے ملک کے وزیراعظم کے منصب تک جا پہنچا کے احساس محرومی کا رد عمل کہہ لیں یا پھر کچھ اور.... لیکن خود بھارت میں امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران بھارتی وزیراعظم کے طرز عمل پر شدید تنقید کی جارہی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تنقید صرف وہاں اپوزیشن کی جانب سے نہیں بلکہ بھارت کے قومی اور ملکی امور پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں ، تجزیہ نگاروں اور مبصرین کی طرف سے جاری ہے جس میںوہاں کا سوشل میڈیا بھی شامل ہے۔