(گزشتہ سے پیوستہ)
انہوں نے کہا کہ مشکلات کے باوجود پاکستان کا مستقبل روشن ہے۔ وہ پاکستان سے والہانہ محبت کے اظہار میں جن جذبوں کا ذکر اور نشاندہی کر رہے تھے‘ اسکی داد دئیے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ اُنکی گفتگو کے دوران ایڈیٹرز کے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لینے لگے، خود ہمارے ذہن میں بھی بہت سے ایسے سوالات تھے جن کا تعلق ترکی کے نظامِ حکومت‘ ان کی ترقی کی جانب پیش قدمی اور پاکستان سے مماثلت رکھنے والے مسائل سے تھا جنکے حل کیلئے انکے ذہن میں کیا خاکہ تھا، جاننا ضروری تھا۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ ہمارے سوالات سے پہلے ہی آگاہ ہوں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو بڑھاتے ہوئے دنیا کی تیزی سے بدلتی جیوپولیٹیکل حقیقتوں اور انکے پاکستان اور ترکی پر مرتب ہونیوالے اثرات پر بھی کھل کر بات کی۔ انکی گفتگو سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان کے مسائل سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ انکے حل کیلئے وہ ہر پاکستانی کی اُمیدوں کیساتھ جڑے ہوئے بھی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ جن کا ہاتھ تاریخ کی نبض پر ہوتا ہے وہ دُنیا میں وقوع پذیر ہونیوالے واقعات کو زیادہ وسیع النظری سے دیکھتے ہیں۔ دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور قومیت پر مبنی ریاستوں کا فلسفہ بھی تبدیل ہو رہا ہے‘ شام اور عراق اسکی بڑی مثالیں ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ دو دہائیوں میں آنے والے بڑے سیاسی و جغرافیائی زلزلوں کا تذکرہ بھی کیا، جیسے سوویت یونین کا ٹوٹنا پہلا بڑا سیاسی و جغرافیائی زلزلہ تھا جسکے اثرات آج تک یوکرائن میں جاری بحران کی شکل میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ‘ 2008ء میں عالمی مالیاتی بحران اور چوتھا اور آخری زلزلہ ’’عرب اسپرنگ‘‘ تھا۔ انکا کہنا تھا کہ ایسے میں صرف وہ ریاستیں اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہیں جنکے پاس وژن اور گورننس کی صلاحیتیں ہیں۔ جن ریاستوں کے پاس وژن نہ ہو لیکن گورننس کی صلاحیت ہو‘ وہ بھی اس طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہیں لیکن اگر دونوں چیزوں کا فقدان ہو تو انجام صرف ریاست کی ٹوٹ پھوٹ اور افراتفری ہی ہو گا۔ آج وقت کا دھارا نہایت تیزی سے بہہ رہا ہے اور کسی بھی ملک کی خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ ایسا جمہوری نظام ہو جس میں حکمرانوں کا احتساب بھی ہو اور طویل مدتی معاشی ترقی کا وژن بھی۔ ترکی کا ذکر کرتے ہوئے دائود اوغلو نے کہا کہ ترکی میں ایسا جمہوری نظام رائج ہے جس میں ذمہ دارانہ احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسی نظام نے ترک معاشرے کو ایک نئی شکل بھی دی ہے تاہم انکا ملک بھی ان زلزلوں اور انکے اثرات میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 12برسوں میں ترکی کی فی کس آمدنی تین گنا اضافے کیساتھ 11ہزار ڈالر ہو چکی ہے اور اسکا جی ڈی پی بھی 230 ارب ڈالر سے بڑھ کر 850 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ یہ صرف مستحکم جمہوریت اور شفاف نظام کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے پرفارمنس کے ذریعے غیرجمہوری قوتوں کو شکست دی اور ترک قوم میں خوداعتمادی بحال کی۔ ترکی میں عوام کے علاوہ معاشرے کے کسی طبقے کو حکومت کا حق حاصل نہیں۔ 90ء کی دہائی تک صرف فوجی ہی ترکی کا وزیراعظم ہو سکتا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا کنٹرول چھوڑنے کو تیار نہ تھی اور سمجھا جاتا تھا کہ منتخب نمائندے سٹرٹیجک فیصلے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ سیاسی حکومتوں کو سماجی و معاشی معاملات تک محدود کر دیا جاتا تھا جبکہ فارن پالیسی کے معاملات ان کی پہنچ سے دُور تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ آج فوجی اور سویلین بیوروکریسی اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ عوام ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے اور جمہوریت ترقی کر رہی ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے بھی انکا ایک وژن تھا کہ پاک افغان تعلقات سے دہشت گردی کی لعنت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور ترکی نے دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مضبوط بنانے کیلئے ہمیشہ کوششیں کی ہیں جن کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ اسکے اپنے ہمسایوں کیساتھ تعلقات اچھے ہوں۔ وزیراعظم کی مدبرانہ گفتگو سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلق کو عوام کی معاشی خوشحالی کیلئے اہم سمجھتے ہیں۔ ترکی اور پاکستان بھائیوں کی طرح ہیں اور اس برادرانہ تعلق کو معاشی ترقی کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں ترک وزیراعظم کہنا تھا کہ ترکی میں میڈیا بالکل آزاد ہے‘ ترکی میں 7ہزار اخبارات اور 400سے زیادہ قومی و علاقائی چینل ہیں۔ ترکی کے پانچ بڑے اخبارات میں سے چار کھل کر حکومت پر تنقید کرتے ہیں لیکن کچھ مفاد پرست عناصر میڈیا کے روپ میں حکومت کیخلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی گروپ کو حکومت کے متوازی نظام بنا کر ملک کیخلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور مذہب کی آڑ میں سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانا انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔ اگر کسی کو حکومت میں آنا ہے تو اس کیلئے سیاست کے دروازے کھلے ہیں۔ سیاست کی بنیاد مثبت روایت پر ہونی چاہئے نہ کہ سیاست کو استعمال کر کے مثبت روایات کو تباہ کر دیا جائے۔ ہمیں اپنے اپنے ملکوں میں مثبت اقدامات کر کے حالات بہتر بنانے چاہئیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا ہمیں آمریت اور داعش ماڈل میں پھنس جانا ہے یا پھر تیسرا بہتری کا راستہ تلاش کرنا ہے جو جمہوریت کی کوکھ سے نکلتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں علامہ اقبالؒ کے نظریات کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مجھے تو لوگ ’’احمد لاہوری‘‘ کہتے ہیں اور مجھے لاہور پسند بھی بہت ہے‘‘۔ ترک وزیراعظم کیساتھ ایڈیٹروں کی یہ ملاقات کئی لحاظ سے یادگار رہی۔ رخصت ہوتے وقت انہوں نے سی پی این ای کے منتخب ایڈیٹروں کو ترکی کے دورے کی دعوت بھی دے ڈالی جو دونوں ممالک کے صحافتی حلقوں کے باہمی روابط کو فروغ دینے کیلئے ایک مثبت پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔گزشتہ 12 سال میں ترکی نے ترقی کی جو منزلیں طے کیں‘ ان میں آئی ایم ایف کو اربوں ڈالر قرضہ دینا قابل ذکر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی ترکی کی طرح نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ اگر انتہائی تدبر کیساتھ انکی باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ احمد دائود اوغلو نے ایک سیاسی ورکر کے طور پر سلطنت ِ عثمانیہ کے احیاء کا جو خواب دیکھا تھا، وزارتِ عظمیٰ پر براجمان ہوتے ہی وہ اسکی تعبیر ڈھونڈھنے نکل پڑے ہیں جس کی پہلی کڑی کا آغاز انہوں نے پاکستان سے کیا ہے۔ اگر اسلامک بلاک کا تصور عملی قالب میں ڈھل جائے تو ترکی اس کیلئے قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے جبکہ قدرتی وسائل سے مالامال اسلامی اور عرب دنیا اسلامک یونین کے اس پلیٹ فارم پر باہمی تعاون سے نہ صرف خود کو جدید مغربی دنیا کے مقابل لا سکتی ہے بلکہ دُنیا میں طاقت کے بگڑتے توازن کو بھی درست کر سکتی ہے تاہم اس کیلئے مسلم قیادتوں کا ذاتی مفادات اور فروعی اختلافات کو ترک کرنا انتہائی ناگزیر ہے لہٰذا مسلم اُمہ کو پہلی فرصت میں مدینہ کے مذہبی قبلہ کے ساتھ ساتھ اپنی بقاء و ارتقاء کیلئے استنبول کو اپنا سیاسی قبلہ مان لینا چاہئے۔