موجودہ منتخب حکومت کے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کی دعوت پر پاک بھارت صورتحال کے پس منظر میں بلائی گئی اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) میں قریب قریب تمام قومی سیاسی اور دینی جماعتوں نے شرکت کی، بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل کو بھی دعوت دی گئی تھی وہ انکار کر گئے، بلوچوں کے مصائب، زخموں اور غصب حقوق کی داستان ہمہ جہت اور گہری ہے، اس پہ بات کا یہ موقع محل نہیں، پورا سچ ویسے بھی نہیںلکھا جا سکتا، چنانچہ بلوچستان کی کرب ناک کہانی ایک سچائی، پھر بھی اختر مینگل کو اس قومی کانفرنس میں شرکت کر کے پاکستان کی ترجمانی میں حصہ دار بن کر، اتمام حجت کی راہ ترک نہیں کرنی چاہئے تھی، وہ ایسا راستہ اختیار نہ کریں جس سے بلوچوں کے استحصال کا جواز ملتا جائے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں ملکی اور قومی بقاء کے اس ایک اور فیصلہ کن مرحلے میں شرکت کے ازخود شمولیت نہ کر کے قومی بیداری کی متوقع مشعل اپنے دو نمائندوں (شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری) کے حوالے کر دی، بہرحال یہ طے ہے خان صاحب نے 3اکتوبر کی اس آل پارٹیز کانفرنس میں قومی بیداری کی مشعل خود اپنے ہاتھوں میں نہ تھام کر اجتماعی پاکستانی نفسیات کو شدید ترین ذہنی ضرب لگائی ہے، وہ مستقبل کی سیاست میں اس کا خمیازہ بھگتیں گے، غالباً بھگتنا پڑے گا، کہنا زیادہ قرین قیاس ہے، قوموں کو پہنچائے گئے ایسے قومی زخم بھلانا ناممکن ہوتے ہیں۔ خان صاحب نے ’’میرے پاکستانیو‘‘ کہنے کے باوجود پاکستانیوں کی زندگی و موت کی فرنٹ لائن کو (آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد)اس قدر بے قدری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اپنی دو نمبر کی قیادت کو جانے کا حکم دے کر خود نتھیا گلی میں لال حویلی کے بقراط عصر کے ساتھ گپ شپ میں وقت گزارنے کی زیادہ قدر کرتے ہیں، کیا پاکستانیوں کی اجتماعی نفسیات اپنی اس باطنی توہین کو فراموش کر سکے گی، شاید ، بلکہ یقیناً نہیں!
لال حویلی کےمکیننے 30؍ ستمبر کے جلسے میں پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف کے لئے جو زبان و بیان اختیار کئے، اس پر طالب علم کے اسی اخبار میںکالم نگار امتیاز عالم نے ’’بے شرمی کو شرم آنے سے رہی‘‘ کے عنوان سے پاکستانی سماج کی مثبت روایات کا طمانچہ رسید کر دیا، لال حویلی کے باسی کے سلسلے میں برسوں پہلے خاکسار موچی دروازے لاہور میں منعقدہ وہ جلسہ کبھی نہیں بھلا سکتا جس میں اس شخص نے بی بی شہید کے لئے ایسی زبان سے کام لیا جس کے بعد ازل و ابد کی ساری اخلاقی اور سماجی اقدار کا ایک وسیع قبرستان تعمیر ہو گیا تھا مگر اس جلسے کے بعد بھی وہاں بی بی کے موضوع پر اپنے اس ابتذالی طریقے سے باز نہ آ سکا ۔آج اس نے میاں نواز شریف کو اپنے ہدف پر رکھا ہوا ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس کا مزید ذکر کرنے سے پہلے پاکستان کے سابق غیر آئینی قومی صدر اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے حال ہی میں شائع شدہ ایک انٹرویو پر تھوڑی سی گفتگو وقت کا تقاضا ہے!
جنرل صاحب برطانیہ میں مقیم ہیں، اپنے تازہ ترین انٹرویو میں متعدد نظریات کا اظہار کیا، ان میں چند یہ ہیں۔ ’’پاکستان کے لئے جمہوریت موزوں نہیں، 40سال تعلق رہا، فخر ہے فوج نے میرا ساتھ دیا، امریکہ نے ہمیں استعمال کیا اور دھکا دیا پاکستانی نظام میں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، خراب حکمرانی کی وجہ سے عوام کا جم غفیر آرمی چیف کی طرف دوڑتا ہے، اس طرح فوج سیاست میں آ جاتی ہے۔‘‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کے اس انٹرویو میں ان نظریات سمیت جو کچھ کہا گیا ہے وہ قابل مذمت تو ہے ہی، تاریخی، سماجی، سیاسی اور فکری لحاظ سے بھی سو فیصد غلط خلاف واقعہ اور فوجی طالع آزمائی کے جرثوموں سے آلودہ ذہنوں کی خود پرستی کا شاہکار بھی ہے، ان جیسے تمام مکاتب فکر، ’’جعلی اور حقیقی جمہوریت‘‘ کے مغالطہ آمیز فلسفے کے پرچارکوں سمیت، ایک ایک نکتے ایک ایک سوال، ایک ایک اعتراض کا مدلل، مربوط اور مفصل جواب دیا جا سکتا ہے، جنرل صاحب یا ان کے کسی ترجمان کو شوق ہو، وہ انہی صفحات پر ہمارے ساتھ مکالمہ کر سکتا ہے، فی الوقت اتنا کہنا ہے، جنرل صاحب اب اپنی ذاتی تنہائی کی انتہا پر ہیں، ایک سیاست دان آصف علی زرداری کی وہ سیاسی حکمت عملی جس کے نتیجے میں انہیں پاکستان کی صدارت اور بالآخر پاکستان کے سیاسی ماحول سے، ایسے نکالا گیا جیسے دودھ سے مکھی یا بال نکالا جاتا ہے۔ اب برطانیہ کی بھرپور زندگی میں سرسراتی شکست اس کا پیچھا کرتی رہے گی!
آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں منتخب حکومت اور اس کے منتخب سربراہ سمیت تمام قائدین قومی نظر میں احترام و محبت کے مستحق ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی آمد اس قومی سطح پر البتہ پہلا وقوعہ تھا، وہ شریک ہوئے، کانفرنس کے اختتام پر میڈیا سے خطاب کیا، کانفرنس میں کی گئی تقریر ہو یا اختتام پر میڈیا سے گفتگو، بلاول ون پلس تھری تھے، انہیں دیکھ اور سن کر پاکستان کے عوام کو ذوالفقار علی بھٹو، بی بی شہید اور آصف علی زرداری کے اسلوب یاد آ گئے، خاکسار نے ایک بار بلاول کے لئے عرض کیا تھا ’’ہے دلبری است ارباب سیاست کا عصاء‘‘
بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی قومی سیاست کے عہد نو کی علامت ہیں۔ سیاست میں نوواردوں کا عہد شروع ہو چکا ہے، پاکستان کے سیاسی عمل میں شاید سب سے طاقتور سیاسی علامت بلاول بھٹو زرداری ہیں، بلاول بھٹو زرداری اس عظیم ماں اور پُر عزم والد کا فرزند ہے جن میں سے ایک نے قومی سفر کو شہادت سے سرفراز کیا، دوسرے نے در گزر، بھول جائو اور آگے بڑھو، کے نصب العین کی راہ میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھی، جوانی بندی خانے کی نذر کر دی شب و روز اس منزل کے حصول میں لگا دیئے جسے آئینی بالادستی کا قیام کہا جاتا، بالآخر وہ کامیاب ہوا، آل پارٹیز کانفرنس میں سارے جہاں کی نگاہوں کا مرکز بلاول تھا، پنجاب اسی بلاول کا انتظار کر رہا ہے!
.