گزشتہ دنوںمحترم عمران خان نے رائے ونڈ میں بہت بڑا اور اہم احتجاجی جلسہ کیا جس پر لازماً کئی کروڑ روپے خرچ ہوئے اور پھر اس احتجاجی جلسے کی پولیس سیکورٹی اور دیگر انتظامات پر بھی حکومتی خزانے سے کئی کروڑ خرچ ہوئےہونگے۔ دونوں طرف سے کروڑوں بلکہ مجموعی طور پر ارب روپے سے بھی زیادہ اخراجات اور انڈسٹری اور کاروباری نقصان کے نتیجے میں غریب عوام کا کتنا بھلا ہوا ؟ کشمیر کاز کی کتنی خدمت ہوئی ؟ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم انسانوں کو کیا سگنل ملا ؟ جنگی جنون میں مبتلا بھارت کو کیا پیغام گیا ؟ ایک پاکستانی کے طور پر سیاسی جانبداری میں الجھے بغیر میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب کسی قوم کو دشمن سے خطرہ لاحق ہو تو پھر داخلی انتشار، شخصی عداوتیں اور اقتدار کی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر پہلے قومی بقا کے دشمنوں کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ لازم ہے۔ خطرہ ٹل جائے تو پھر داخلی معاملات و اختلافات نمٹائے جاتے ہیں۔عمران خان کے جمہوری حقوق سر آنکھوں پر مگر قومی بقا کو لاحق خطرات ،بحران، عوامی و اجتماعی مفاد سب پر افضل اور لازم ہے۔ اب وہ مزید کوئی جلسہ کئے بغیر اسلام آباد نواز شریف حکومت کو ختم کرنے کیلئے جانےکا اعلان کر چکے ہیں۔ ادھر پاکستان کے ارد گرد بھارت اور افغان دشمنی اور ایران کی خاموشی کا ماحول ہے۔ بھارتی سیکورٹی کے سیٹلائٹ ممالک بنگلہ دیش، بھوٹان، سکم، اور افغانستان بھارت کے کہنے پر سارک ممالک کی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر چکے ہیں۔ امریکہ سے معاشی ،ٹیکنالوجی اور دفاعی شعبوں میں دیرپا تعاون کی بنیادیں پڑتے ہی بھارت پر علاقائی برتری کا جنون سوار ہو چکا ہے وہ ارد گرد کے ممالک پر اپنی مرضی اور برتری تھونپنے لگا ہے۔ واحد رکاوٹ اور بھارت کو چیلنج پاکستان سے ہی ہے جسے بھارت ،تنازع کشمیر، بلوچستان اور دہشت گردی کے تین عنوانات کے تحت کمزور کر کے گرانے اور اسے سیکورٹی سیٹلائٹ ملک کے طور پر لائن میں کھڑا دیکھنا چاہتا ہے۔ کیا اس ماحول میں پاکستان میں داخلی اور سیاسی خلفشار ہمیں زیب دیتا ہے ؟ اب آیئے عالمی صورتحال کی طرف کہ وہ پاکستان کیلئے کیا خاکہ پیش کرتی ہے (1) امریکہ میں بھارتی لابی حد درجہ مضبوط اور منظم ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم میں چند بھارتی نژاد امریکیوں کو کلیولینڈ کے ری پبلکن کنونش میں کلیدی پوزیشنوں میں مصروف کار دیکھا ان سے میری تفصیلی گفتگو بھی ہوئی اور آن کیمرہ انٹرویو بھی ہوئے۔ وہ اپنے آبائی وطن کے لئے کمٹمنٹ رکھتےہیں جبکہ پاکستانی، امریکن، ساجد تارڑ اور چندمسلمان ٹرمپ کے حامی مگر اثرو رسوخ زیادہ نظر نہیں آتا۔ یوں بھی ڈونالڈ ٹرمپ بھارت کی حمایت کر کے بھارتی فوج کے ذریعے پاکستان سے نمٹنے کے عزائم کا اعلان بہت پہلے کر چکے ہیں۔ ہیلری کلنٹن پاکستان اور بعض پاکستانیوں سے تعلقات رکھتی ہیں مگر ان کی ترجیح بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ جنوبی ایشیا میں صدر باراک اوباما کی پالیسی کو جاری رکھیں گے امریکہ کے مسلمانوں اور پاکستانیوں کی امریکی صدارت کیلئے واحد چوائس ہیلری کلنٹن ہیں جن کی انتخابی مہم بھی پاکستانیوں سے کئی گنا زیادہ تعداد بھارتی امریکیوں کی ہے۔ ماضی میں کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے والے امریکہ کا موقف اب یکسر بدل چکا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ ،وہائٹ ہائوس اور پینٹا گان کے ترجمان حالات خراب ہونے پر تشویش کے اظہار اور پرامن طریقوں سے حل کیلئے دونوں ملکوں پر زور دینے سے آگے نہیں جاتے۔ اس بیان کی عملی تشریح قابض بھارت کے حق میں جاتی ہے کہ غاصب کو ہم نے کچھ نہیں کہنا کشمیر پر ظلم ہو ہم صرف تشویش کا اظہار کرتے ہیں مذمت بھی نہیں کرتے۔ پٹھان کوٹ، اڑی کے واقعات ،دہشت گردی کے خلاف سالہا سال تک ہمارے اتحادی پاکستان کی سرزمین سے ہوئے اور وہی ذمہ دار بھی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون سلامتی کونسل کی قراردادوں کی تعمیل و نفاذ کے بارے میں کوئی ذمہ داری ادا کئے بغیر ہی صورتحال پر تشویش اور اپنی ثالثی کرنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اور بھارت دونوں ہی میری ثالثی منظور کریں تو میں ثالثی کرنے کو تیار ہوں۔ہم خوشی سے بغلیں بجانا شروع کر دیتے ہیں ،سیکرٹری جنرل نے کتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔ حالانکہ بانکی مون اپنے پیشرو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کے الفاظ اور فارمولا ادھار لےکر استعمال کر رہے ہیں کوفی عنان کو ان کے بااعتماد معاون ششی تھرو نے یہ فارمولا تجویز کیا تھا۔ ظاہر ہے سلامتی کونسل کی قرادادوں کی خلاف ورزی کرنے والا کشمیر پر غاصب بھارت بھلا ثالثی کیوں منظور کرے گا۔ اب رہی جنرل اسمبلی اور عالمی برادری کی بات تو خود ہماری ماضی کی حکومتوں نے بھی اپنے اپنے اقتدار کی ضروریات کے مطابق عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے بارے ایسے ایسے اقدامات اور بیانات دئیے ہیں کہ جس سے کشمیر کا معاملہ مجروح ہوا۔ مزید یہ کہ بھارتی لابی اور مغربی ممالک کی مسلم دنیا میں تنازعات کو زندہ اور موجود رکھنے کی پالیسی نے کشمیر،فلسطین،یروشلم، اور دیگر تنازعات کو حل ہونے سے روکے رکھا۔
اب آئیے وزیر اعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کی طرف۔ خدا لگتی بات ہے کہ گزشتہ 35سال میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم میں کسی نے بھی کشمیر ،کشمیریوں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کا اتنی تفصیلی ذکر نہیں کیا جتنا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی اس تقریر میں کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف اپنی تقریر کے لئے واقعی ستائش کے قابل ہیں۔ کہ کشمیر کے بارے میں عالمی بے حسی اور بھارت پروری کے اس ماحول میں بھی انہوں نے تنازع کشمیر ،کشمیریوں پر بھارتی مظالم اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کے بارے میں آواز اٹھائی۔ ا س تقریر کا خیر مقدم مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں نے بھی کیا۔ ہمیں سیاسی جانبداریوں کی شدت میں سچ اور حقائق کو تسلیم کرنے سے بھی انکار نہیں کرنا چاہئے۔ رہی بات اس تقریر کے اثرات کی تو مقبوضہ کشمیر کے مظلوموں کی اشک شوئی ہوئی، حوصلہ افزا بات ریکارڈ پر آئی بھارت کو غصہ آیا۔ زمینی حقائق واقعی تبدیل نہیں ہوئے۔ بھارتی میڈیا کی تلملاہٹ سامنے آئی۔ بھارت بدستور ،کشمیر پر قابض اور غاصب ہے۔ اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ مسلسل قرار دے رہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی نواز شریف کے نیویارک سے روانہ ہونے کے چار روز بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہندی میں ایک غصیلی تقریر اور پاکستان پر الزامات لگا کر چلی گئیں۔ پاکستان اور بھارت کے مندوبین نے حق جوابدہی کا استعمال کر کے جوابی تقاریر بھی کیں، مگر زمینی حقائق بدستور وہی رہے اور کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی دوطرفہ ملاقاتوں میں بھی غیر ملکی سربراہان مملکت و حکومت سے 12سے زائد ملاقاتوں میں کشمیر کی صورتحال پر اپنا موقف بیان کیا۔ دوسروں نے سنا، بعض نے پاکستانی موقف کی حمایت کی۔ بعض نے تشویش کا اظہار اور بعض نے موقف سن کر خاموشی اختیار کر لی ۔امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنی ملاقات میں کچھ اور بھی کہا مگر زمینی حقائق اور تنازع کشمیر کے حل کی کوئی امید سامنے نہیں آئی۔ اب آیئے شاہ محمود قریشی کی تنقید پر کہ وہ خود وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔وہ خود اپنا ریکارڈ چیک کرلیں وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میںاپنے صدر آصف علی زرداری یا خود اپنی کوئی ایک ایسی تقریر بتا دیں جس میں نواز شریف کی تقریرسے زیادہ کشمیر کا ذکر کیا گیا ہو۔ آخر وہ کس مصلحت یا دبائو کا شکار تھے کہ وہ کشمیر کا مقدمہ موثر طور پر پیش کرنے سے قاصر رہے۔مسئلہ کشمیر اگر حل نہیں کر ا سکتےتھے تو وزیر خارجہ کے طور پر اقوام متحدہ اور امریکی وزیر خارجہ کے دوروں پر کوئی ایسی تخلیقی ڈپلومیسی تو اختیار کر لیتے کہ عالمی برادری متحرک ہو جاتی۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے ملاقاتوں کی خوشگوار تصاویر کا نام ڈپلومیسی نہیں ہے۔ محترم شیخ رشید بھی اپنے صدر پرویز مشرف کے ساتھ بطور وزیر اطلاعات اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں آتے رہے ہیں۔ آپ صدر مشرف کی جنرل اسمبلی کی تقریر میں کشمیر کےذکر کا ریکارڈ دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں۔ کشمیر کے بارے میںزمینی حقائق ضیاءالحق ،بے نظیر، نواز شریف، پرویز مشرف، سمیت کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکا۔ مسئلہ کشمیر اسی وقت عالمی برادری سنے گی اور حل کرے گی جب پاکستان داخلی طور پر مضبوط اور بحرانوں سے نکل کر اپنی بات سنانے اور منوانے کی صلاحیت حاصل کرے گا۔ کون سا پاکستانی حکمران اقوام متحدہ آ کر مسئلہ کے حل کیلئے کوئی تخلیقی ڈپلومیسی یا کوئی منفرد فارمولا تجویز کر پایا۔ آج داخلی سیاست اور اقتدار کیلئے مصلحتوں اور ذاتی پسندیدگی کو نظر انداز کر کے ملک کو بچانے اور بھارتی عزائم سے بچنے کی ضرورت ہے۔ محض اپنے ایٹمی پاور ہونے کے اعتماد پر مکمل بھروسہ کی بجائے اپنے متحد قوم ہو کر کھڑا ہونے کا تقاضا پورا کریں۔
.