ہم نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ آئی سی ایس ہو یا پی اے ایس، سی ایس پی ہو یا ڈی ایم جی مکمل طور پر غیر ٹیکنیکل ہے لہٰذا اِن افسران کو لاء اینڈ آرڈر بحال رکھنے کیلئے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن میں تو تعینات کیا جا سکتا ہے مگر ایک ہی آفیسر کا بطور سیکرٹری ہیلتھ ، سیکرٹری ایجوکیشن، سیکرٹری اریگیشن، سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو تعینات ہونا چہ معنی دارد۔ لہٰذا ٹیکنیکل محکموں کے سیکرٹریز ٹیکنیکل افسران ہی لگائے جانے چاہئیں‘ اس ضمن میں ملک میں فی الفور ’’آل پاکستان سروس‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے اور آل پاکستا ن سروس میں جانے کیلئے ہر افسر کو گریڈ19 میں نئے امتحان سے گزارا جائے جو مساویانہ طور پر وفاقی اور صوبائی سروس سے منسلک افسران یہ امتحان پاس کریں‘ انہیں آل پاکستان سروس کا حصہ بنا دیا جائے۔ اس میں کسی صوبہ کے کوٹہ کی ضرورت اسلئے نہ ہے کہ قابلیت اور اہلیت کی بنیادی شرط کو لازمی قرار دیا جانا چاہئے‘ تب ہی قابل افسران پر مشتمل سول سروس کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ کیا 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کا اِنتظام و اِنصرام صوبائی سروس نے کرناہے یا صوبوں پر وفاقی افسران کا تسلط قائم رکھا جانا ہے؟ فی الحال پاکستان کے کئی صوبوں میں کوٹے پر بھرتی ہونیوالے وفاقی افسران کا میرٹ پر بھرتی ہونیوالے صوبائی افسران پر غاصبانہ تسلط قائم ہے۔ مزید برآں وفاقی افسران وزیر اعلیٰ کے بھی ماتحت نہیں ہوتے اور ان پر صوبے کے کنڈکٹ رولز بھی لاگو نہیں ہوتے‘ صوبے کا وزیر اعلیٰ اس حد تک بے بس ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی افسر کی معطلی اور انکوائری کے احکامات جاری نہیں کر سکتا‘ اس کیلئے اُسے وفاق یعنی وزیراعظم پاکستان سے رابطہ کرنا پڑتا ہے لہٰذا صوبوں کا انتظام صوبائی افسران کے ذریعے کیا جائے اور جو وفاقی افسران کسی مجبوری کے تحت صوبوں میں تعینات کئے جائیں ان کو صوبائی کنڈکٹ رولز کے ماتحت کیا جائے۔ آل پاکستان سروس قائم کرنے کے بعد پی اے ایس یا ڈی ایم جی گروپ کی قطعاً ضرورت نہ رہے گی‘ وفاقی سروس کے دیگر 12گروپس وفاقی محکموں کو بطریق احسن چلا سکتے ہیں اور صوبوں کا اِنتظام صوبائی سروس کے افسران سے یقینی بنایا جا سکتا ہے لہٰذا وفاقی افسران کے بوجھ سے ملکی مالیات کو چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے‘ ویسے بھی ان افسران کا آج تک کوئی ایسا نمایاں کردار سامنے نہیں آسکا جس نے پاکستان میں گورننس کی اعلیٰ وروشن مثالیں قائم کی ہوں۔ ملک کے اندر جب بھی کسی اہم پالیسی کا عملدرآمد یقینی بنانا ہوتاہے تو ہمیں اضافی ذِمہ داری فوج پر ہی عائد کرنا پڑتی ہے۔ سول سروس میں جامع اصلاحات سے قبل کمیشن میں چاروں صوبوں کی نمائندگی صوبائی سروس کے افسران کے ذریعے یقینی بنائی جائے۔ وفاقی افسران کی صوبوں میں ناجوازیوں کے خلاف 2010میں چاروں صوبوں نے ملکر سپریم کورٹ میں آئینی پیٹیشنز دائر کیں جو تاحال زیرسماعت ہیں۔ اگر حکومت سول سروس اصلاحات میں مخلص ہے تو پھر ان تما م پٹیشنرز کو بھی سماعت کیا جانا آئندہ اصلاحات میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر بھرتی شدہ صوبائی افسران کو ایک نوزائیدہ سروس یعنی ’’پراونشل ایگزیکٹو سروس‘‘ کے طور پر لیا جائے‘ اس سروس کے ہر افسر کی اعلیٰ تعلیم کو یقینی بنایا جائے گریڈ 19تک پہنچنے سے قبل تما م صوبائی افسران کو انکے متعلقہ شعبوں میں اندرون یا بیرونِ ملک سے ڈاکٹریٹ کروائی جائے تا کہ ’’آل پاکستان سروس‘‘ کا حصہ بننے سے قبل اِن افسران کی کپیسٹی ڈویلپمنٹ ہو چکی ہو اور ہم ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قابل افسران پر مشتمل سول سروس قائم کر سکیں۔ کسی بھی محکمہ کے سیکرٹری کے عہدہ کیلئے اس محکمہ کے افسر کا پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہونا لازمی قرار دیا جائے تاکہ قابل ترین افسران ہی محکموں کے سیکرٹریز تعینات ہو سکیں‘ نہ کہ خالی خولی، اکڑفوں، نخوت زدہ، متکبر اور نا اہل افسران باری باری ایک محکمہ سے دوسرے محکمہ میں چھلانگیں مارتے پھریں۔ تنخواہ ،گریڈ اور پے اسکیل کو از سرنو ترتیب دیا جائے تما م سرکاری افسران کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر سے زیادہ یا کم از کم برابر رکھی جائے تاکہ سول سروس ایک امتیازی کیر ئیر محکمہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آ سکے‘ اسکے بعد سزا اور جزا کا سخت نظامِ احتساب قائم کیا جائے، اگر ہم دیانتداری سے کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑنا چاہتے ہیں تو پھر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہمیں کرپشن کی سزا بھی ویسے ہی تجویز کرنا ہو گی تا کہ اچھی خاصی تنخواہ ہونے کے باوجود بھی کوئی افسر کرپشن کو وطیرہ نہ بنا سکے۔
سول سروس میں کسی بھی افسر کی کارکردگی جانچنے کا معیار سالانہ رپورٹ پر ہرگز منحصر نہیں ہونا چاہئے‘ اس کیلئے ہفتہ وار اور ماہانہ ٹارگٹس متعین کئے جائیں‘ ان ٹارگٹس کی بنیاد پر کسی بھی افسر کی کارکردگی کو جانچاجائے‘ یہ معیار ہر ماتحت افسر کو اپنے سینئر افسر کے ناجائز احکامات کے سامنے انکار کی جرات پیدا کریگا سالانہ کارکردگی کا فرسودہ نظام کسی بھی افسر کو اچھی کارکردگی کی رپورٹ کے لالچ سے آزاد نہیں ہونے دیتا جس کی بناء پر اسے سینئر افسر کے ہر جائز اور ناجائز حکم کی تعمیل کرنا پڑتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وفاقی افسران کیلئے آئین قانون اور ضابطہ کوئی معنی نہیں رکھتے اور صوبائی افسران شودر کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ تمام پالیسیوں میں صوبائی اور وفاقی افسران کے درمیان کوئی تفاوت نہ رکھی جائے۔ تمام مراعات کی تقسیم جائز اور مبنی برانصاف ہو تا کہ سول سروس کی بنیاد اسلام کے مساوات پر مبنی سنہری اصولوں پر قائم ہوسکے۔ فوج سے 10فیصد کوٹہ سے سول سروس میں اِنڈکٹ ہونیوالے افسروں کو ساری سروس میں فوج کے سزا و جزا کے قانون ہی لازمی لاگو کئے جائیں، پھر ہی انکا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے وگرنہ جب وہ فوج سے سول سروس میں آتے ہیں تو ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
وفاق کی علامت کہلانے والی وفاقی سروس کے افسروں کو ہر صوبے میں لازمی بھیجا جائے۔ ڈی ایم جی افسروں کی تمام محکموں میں تعیناتی بھی محدود کی جائے وگرنہ تمام گروپوں کے افسروں کو بھی ڈی ایم جی میں ضم کر دیا جائے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ جب آپ نے کسٹم، انکم ٹیکس، انفارمیشن گروپ، کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ‘ ریلوے اور دیگر گروپ بنا رکھے ہیں تو ان پر ڈی ایم جی کو مسلط کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ وفاقی سروس میں بھی برہمن گروپ کے افسروں کا کام عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی رہ گیا ہے۔ یہ اپنے بدعنوان افسروں کا ٹھوک بجا کر تحفظ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ لاوارث افسروں کو راندۂ درگاہ بنانے کیلئے بھی ایک ہو جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے انتظامی میدان کو مضبوط اور کارکردگی آمیز بنانے کیلئے سی ایس ایس کے امتحانات کے نظام کو مکمل طورپر شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی اس پر انگلی نہ اُٹھا سکے۔ ہمارا موجودہ امتحانی نظام فرسودہ اور ناکارہ ہو چکا ہے، اس میں موجود خامیوں اور خرابیوں کو آج تک کسی نے بھی دُور کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے فائدہ اٹھا کر سی ایس ایس کے نقاب پوش پناہ گزینوں کو متوازی سرحدیں عبور کروائی جاتی ہیں۔ انتظامی شبستان کی خوابگاہوں تک رسائی کا ویزا اسی امتحانی نظام کا مرہونِ منت ہے۔ مغرب کا بنیادی تعلیمی نظام طالبعلم کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور جبلّی مسائل کے حل پر زور دیتا ہے جبکہ ہمارے یہاں سنٹرل سپیریئر سروس کے امتحان میں کچھ ایسے سوالات کی بھرمار ہوتی ہے، جیسے،’’ علامہ اقبال نے دوسری گول میز کانفرنس میں ڈنمارک کے کتنے کریم بسکٹ کھائے تھے‘‘ اور ’’31 جون کو کون سابڑا حادثہ ہوا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے جنرل نالج کے سوالات فضولیات کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ امیدوار کی ذہنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرتے۔
سی ایس ایس کے امتحانات میں شامل نصاب کو فوری طورپر تبدیل کر کے موجودہ دور کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق ایسا نصاب لایا جانا چاہئے جسکے مواد کا نفسِ مضمون معاشرے میں پائے جانیوالے مسائل کے حل اور اسباب وعلل کی جانکاری سے ہو۔ کمیشن کا امتحانات لینے والا عملہ انتہائی ایماندار اور خوفِ خدا سے معمور ہونا چاہئے جو واقعی اعلیٰ ڈسپلن اور عقابی نگرانی کا قائل ہو نہ کہ کسی آٹھویں دسویں کے بورڈ کے سپرنٹنڈنٹ کی طرح امیدواروں کو خود بوٹیاں فراہم کرے یا ان کی شیٹیں ایک دوسرے سے تبدیل کرتا پھرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 300 نمبروں کا وائیوا وَوسی یعنی امتحان کا زبانی حصہ بھی مقابلے کے امتحانات میں برائی کی بہت بڑی جڑ سمجھاجاتا ہے۔ یہ تین سو نمبر انٹرویو کیلئے مختص ہیں اور ان کا فائدہ پبلک سروس کمیشن کے کرتا دھرتا اپنا قانونی اور فطری حق سمجھ کر اپنے عزیز واقارب اور من پسند افراد کو طاقتور میرٹ کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ان فیصلہ کن نمبروں کی تعداد300 سے گھٹا کر100 کر دینی چاہئے اور یہ نمبر صرف اور صرف ان امیدواروں کو دئیے جائیں جو غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل ہوں اور یہ بھی مدنظر رکھا جائے کہ جو گروپ ان کو الاٹ کئے جائیں، کیا وہ واقعی اسکے معیار پر پورا اترتے ہیں، نہ کہ یہ نمبر سب سے کم تحریری نمبر حاصل کرنیوالے طاقتور میرٹ والوں کیلئے اچھے گروپوں میں پہنچانے کیلئے استعمال کئے جائیں۔ ایسے نمبر صرف اُن کو دئیے جائیں جو کم از کم تحریری امتحان میں 80 فیصد نمبر حاصل کر سکیں۔ تحریری امتحان میں سب سے کم نمبر لینے والوں کو ایسے نمبر دئیے جانے پر پابندی ہونی چاہئے۔ ڈی ایم جی کی بہت زیادہ گرفت میں ہونے کی وجہ سے کمیشن سفارشی کلچر میں جکڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے اپنے من پسند امیدواروں کو 300 نمبروں کی سہولت دیکر انہیں ان کی خواہش کے مطابق اعلیٰ ترین گروپوں کیلئے منتخب کر لیا جاتا ہے، کمیشن کو چاہئے کہ وہ ایسے منفی تاثر کو ختم کرنے کیلئے امیدواروں کا شفاف انتخاب عمل میں لا کر کمیشن کے وقار اور ساکھ کو بحال کرے۔ اسکے ساتھ ساتھ سول سروس اکیڈمی میں آج تک جو دقیانوسی تربیت کا نظام رائج ہے اسکو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ سول سروس اکیڈمی کا من ٹریننگ پروگرام میں بجائے اسکے کہ تربیت گزاروں کو ملک کی مظلوم جنتا پر ظلم اور راج کرنے کے گُر سکھائے جائیں، انہیں انسانی فلاحی نظریے اور عوامی خدمت کے فلسفے پر مبنی تربیت کرائی جائے تاکہ وہ خود کو عوام الناس کا خادم سمجھتے ہوئے عوام کے گھمبیر مسائل حل کرنے کو ترجیح دیں نہ کہ وہ اپنے دفاتر کے دروازے غریب، مظلوم اور لاوارث عوام کیلئے بند کر دیں۔ 1973ء کے آئین کا آرٹیکل27 سول سروسز میں نسل، مذہب، ذات، جنس اور جائے سکونت کے متعلق کسی بھی قسم کے تعصب سے منع کرتا ہے اور اس میں صرف یہ نظریہ کارفرما تھا کہ اس آرٹیکل کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے مکینوں کے مفادات کو فروغ دیا جائے اور انہیں سول سروس میں متناسب نمائندگی دی جائے مگر اس نرمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پسماندہ علاقوں کیلئے ایک مخصوص کوٹہ رائج کیا گیا جس کا فائدہ ان علاقوں کے ذہین اور قابل امیدواروں کے بجائے انہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جاگیرداروں اور بااثر افراد کو دیا گیا جن کے بچے اندرون و بیرون ملک کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے سندیافتہ ہوتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کا اجراء 1949ء میں ہوا تھا جس کی میعاد 2013ء تک تھی مگر بدقسمتی سے یہ کوٹہ سسٹم آج بھی پاکستان میں رائج ہے، اسے یا تو فوری ختم کر کے صرف اور صرف اوپن میرٹ کر دیا جائے یا اسے اسکی روح کے مطابق نافذ کیا جائے اور اسکا فائدہ صرف ان امیدواروں کو دیا جائے جو پسماندہ علاقوں کے عام اداروں سے تعلیم یافتہ ہوں جبکہ ان علاقوں کے ایسے امیدواروں پر مکمل پابندی ہو جو ملکی و بین الاقوامی اداروں سے پڑھے ہوئے ہوں۔ صرف اسی طرح ہی سول سروس میں طاقتور میرٹ والوں کی اجارہ داری کا خاتمہ اور ایک شفاف میرٹ لاگو ہو سکتا ہے جس کی بنیاد پر ملک بھر سے اہل امیدوار اپنی قابلیت اور صلاحیت کے بل بوتے پر سول سروس کے انتظامی ڈھانچے کا حصہ بن سکتے ہیں۔