• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک خاص اور اعلیٰ و ارفع مقصد کے حصول کیلئے مَن میں لگن ، خوابوں میں سپنے ،دِل میں آرزو اور چاہت کے دیپ جلائے ہوئے کسی منتشر اور معتوب قوم کے افراد کا قافلہ جب اپنے فرزندوں کے سرخ لہو سے ماں مٹی کو سیراب کرتے ہوئے آگے بڑھتاہے تو تحریکیں ظہور پذیر ہوتی ہیں اورپھراِنہی تحریکوں کے سبب زندہ اور غیرت مند قومیں نئے عزم اور ولولے کیساتھ انگڑائی لے کر اُبھرتی ہیں اوربالآخر اقوامِ عالم میں اپنی علیحدہ شناخت منوانے میں سرخرو ہوجاتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمان جو ایک ہزار سال حکمرانی کے بعد رفتہ رفتہ اقتدار سے محروم ہوتے چلے گئے تھے۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی نے مسلمانوں کی شان و شوکت چھین لی۔ قومی شناخت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ شکستہ حال مسلمانوں نے سرسید احمد خاںؒ، نواب سلیم اللہ خانؒ، علی برادرانؒ، سر علامہ اقبالؒ، چوہدری رحمت علیؒ ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر رہبرانِ ملت کی پُر عزم قیادت میں منزل کے حصول کیلئے جدوجہد کا علم بلند کردیا۔ منزل کیا تھی؟ پاکستان کا مطلب کیا :لَا اِلٰہَ اِلاَاللہ محمدالرسول اللہ۔ ایک طویل جدوجہد کے نتیجہ میں برٹش بنیا ء اتحاد کو ناکامی ہوئی اور انہیں مجبوراً بوجھل دل کیساتھ مسلمانوں کیلئے ایک علیحدہ دیس کا مطالبہ ماننا پڑا۔ اِس طرح دنیا کے نقشے پر ریاستِ مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر دوسری ریاست پاکستان کے نام سے وجود میں آگئی۔
کانگریس کے زیرِ اثر انگریز نے تقسیم ہند کے فارمولے پر بھی بد نیتی کیساتھ عمل کیا۔ پاکستان کیلئے عسکری اور حربی اہمیت کے حامل متعدد مسلم اکثریتی علاقوں کو دانستہ ہندوستان کے ساتھ شامل کردیا۔ اسلحہ کے ذخائر اور دیگر وسائل کی بھی مساویانہ تقسیم نہ کی گئی۔ ہندو پنڈت اور فرنگی اکھنڈ بھارت کے اِس سحر میں گرفتار رہے کہ پاکستان بہت جلد ایک ناکام ریاست ثابت ہوکر دوبارہ ہندوستان سے آ ملے گا۔ تقسیم ہندوستان اورانتقال اقتدار کے 3جون فارمولے کا اعلان ہونے پر ریاست جموں و کشمیر کے ہربچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ لیکن انگریز اور بھارتی حکومت کی شہہ پر ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے عوامی تمنائوں کا خون کرتے ہوئے26 اکتوبر1947 ء کو الحاقِ ہندوستان کی دستاویز پر دستخط کردیئے۔
جموں و کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے چند مخالف یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ خطبہ الٰہ آباد اور قرار داد لاہور میں پاکستان کے چار صوبوں کا ذکر تو ہے لیکن جموں و کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کی تجویز شامل نہیں ہے۔یہ تاثر قطعی درست نہیں کیوں کہ پاکستان نیشنل موئومنٹ کے بانی چوہدری رحمت علیؒ نے 28جنوری 1933ء کوجاری کردہ اپنے اعلانِ آزادی ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ Now or Never میں واضح طور پر جموں و کشمیر کو اپنے مطالبہ پاکستان میں ایک جزو لاینفک کے طور پر شامل کیا تھا۔ چوہدری رحمت علی نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک کا نام ’’پاکستان‘‘ تجویز کیا تھا ، جس میں حرف ’’ک‘‘ کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے۔ نامِ پاکستان سے اگر ’’ک‘‘ کو الگ کردیا جائے تو پاکستان کا مفہوم قطعی اُلٹ ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ چوہدری رحمت علی کوجموں و کشمیر کے الحاقِ پاکستان کے تصور کا اولین بانی قرار دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اپنی متعدد تقاریر میںجموں و کشمیر کو پاکستان کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے اِسے اٹوٹ انگ سے تعبیر کیا تھا۔
مہاراجہ کی جانب سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے اگلے ہی روز یعنی 27اکتوبر1947 ء کو بھارتی فوج توسرینگر ایئرپورٹ سے جموں و کشمیر پہنچ کر علاقے کا بندوبست سنبھالنے لگ گئی لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ دوسری جانب پاک فوج کے انگریز سربراہ جنرل سرفرینک میسروی اور جنرل ڈوگلس گریسی نے پاک فوج کو جموں و کشمیر میں داخل کرنے سے انکار کردیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ہندوستان سے الحاق کی خبر کا منظر ِ عام پر آنا تھا کہ جموں و کشمیر میں بے چینی اور بیزاری کی لہر دوڑ گئی۔ مہاراجہ کے اِس اقدام سے عوامی جذبات بھڑک اُٹھے۔ لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اِس طرح آناً فاناً جموں و کشمیر کے طول و عرض میں آزادی کشمیر کیلئے جہاد کا آغاز ہوگیاجو ابتداء میں تو غیر منظم تھا لیکن رفتہ رفتہ ایک ڈسپلن کے تابع ہوتا چلا گیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے جدوجہد آزادی کا آغاز کرنے والی پہلی نسل میں چوہدری غلام عباس، بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان، سردار عبدالقیوم خان اورشیر جنگ کیپٹن نتھا خان جیسی نابغہِ روزگار شخصیات شامل تھیں۔ اِن شخصیات نے آزاد جموں و کشمیر میں ایک الگ حکومت قائم کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ جموں و کشمیر کے اِس خطہ میں آزاد حکومت قائم کرنے کا بنیادی مقصد بھارتی تسلط سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقوں کو آزادی دلوانے کیلئے بیس کیمپ کا قیام تھا۔ جہاں سے آزادی کی تحریک کیلئے اخلاقی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اقوامِ عالم میں مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنا مقصود تھا۔ ہندوستان کے غاصبانہ قبضہ سے جموں و کشمیر کو آزادی دلوانے کیلئے اِس پہلی نسل نے دنیا بھر کے ہر پلیٹ فارم پر اس مقصد کے حصول کیلئے مقدور بھر کاوشیں کیں۔ یہ انہی عظیم شخصیات کی جدوجہد کی بدولت ممکن ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر دنیا بھر میں اقوام متحدہ کی ایک ایسی قرارداد کے طور پر جانا جاتا ہے جس کی تکمیل آج بھی تشنہ طلب ہے اور جسے جنوبی ایشیاء کے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان تلخی اور تنائو کا بنیادی سبب قرار دیا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر ، پاکستان کے لئے سلامتی اور بقاء کا مسئلہ ہے۔ جس سے دستبردار ہونا درحقیقت پاکستان کا اپنی روح ، اپنے فلسفہ حیات اور نظریہ وجودسے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔ یہ بھارت کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی قرارداد نمبر47 کے مطابق جلد از جلد جموں و کشمیر کے عوام کے حقِ استصواب رائے کو تسلیم کرے۔
جموں و کشمیر کی آزادی کیلئے سرگرداں اور برسرپیکار پہلی نسل میں 1946ء کے انتخابات میں منتخب ہونے والے راجیہ سبھا کے رُکن بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے 19جولائی 1947ء کو جموں و کشمیر کی تمام سرکردہ شخصیات کو اپنی رہائشگاہ پر مدعو کیا اور الحاقِ پاکستان کی متفقہ قرارداد منظور کی نیزمہاراجہ کے فیصلہ کے خلاف علم ِ آزادی بلند کرتے ہوئے رضا کاروں کو اکٹھا اور منظم کرناشروع کردیا۔ وہ کچھ عرصہ کیلئے مری منتقل ہوئے جہاں انہوں نے پنجاب اور فرنٹیئرکے رضاکاروں کی مدد سے جہادِ کشمیر کیلئے بیس کیمپ کی بنیاد رکھی۔ اُن کی زیر قیادت رضا کاروں نے کئی محاذوں پر ڈوگرہ فوج کے دانت کھٹے کئے۔ جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقہ کو ڈوگرہ فوجوں سے آزاد کروانے کے بعد انہوں نے 24اکتوبر1947 ء کو آزاد ریاست جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی۔ اِ س آزاد ریاست کے پہلے صدر کی حیثیت سے انہوں نے مسئلہ کشمیر سے آگاہی کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس اور بعد ازیں پی پی پی کے پلیٹ فارم سے تادم مرگ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کوشاں رہے اور 88سال کی عمر میں 31جولائی 2003ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اب ان کے اصولوں پر سختی کے ساتھ کاربند اُن کے فرزند سردار خالد ابراہیم خان جموں وکشمیر کی آزادی کا سپنہ دل میں سجائے جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے صدر کی حیثیت سے سرگرداں ہیں ۔ سردار عبدالقیوم خان کو مجاہدِ اول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ انہوںنے مہاراجہ پر دبائو بڑھانے کیلئے 23اگست 1947ء کو نیلا بٹ کے تاریخی مقام پر ایک جلسہ عام منعقد کیا ۔ جس میں مہاراجہ سے الحاقِ پاکستان کا مطالبہ کیا ۔اُن کی زیرِ قیادت رضاکار مجاہدین کو اُڑی اور پونچھ سیکٹر کے بہت سے علاقوں کو بھارتی اور ڈوگرہ فوج کے تسلط سے آزاد کروانے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے بعد انہوں نے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے مقبوضہ جموں و کشمیر کیلئے جدوجہد کا آغاز کردیا جو تادمِ آخر جاری رہا۔ آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کی بنیاد رکھنے والی پہلی نسل کی آخری نشانی سردار عبدالقیوم خان بھی گزشتہ ماہ 10جولائی 2015ء کو انتقال کرگئے۔ اُن کے انتقال کیساتھ ہی جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے سرگرم پہلی نسل اپنی تمام تر جدوجہد اور کامیابیوں نیز ادھوری خواہشوں اورحسرتوں کو دوسری نسل کے سپرد کرکے رخصت ہوگئی۔ آزادی کشمیر کیلئے سرگرداں پہلی نسل :الوداع۔
تازہ ترین