SMS: #SSC (space) message & send to 8001
sughra.sadaf@janggroup.com.pk
معاشرے تبھی زندہ رہتے ہیں جب ان میں بسنے والے افراد کے لئے زندگی جُرم نہ ہو، وہ اپنے زندہ ہونے پر پچھتانے پر مجبور نہ کر دیئے جائیں۔ مجبوری ازخود ایک بیماری اور لعنت ہے جو بے شمار الجھنوں کو جنم دے کر پوری فضا کو زہر آلود کر دیتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے شہید وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز کیا تھا۔ یہ پروگرام کم آمدنی اور غریب لوگوں کی مالی معاونت کی کاوش تھی تا کہ انہیں زندگی کرنے کی کوئی اُمید دی جائے اور یہ اعتماد بھی کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے وہ بے آسرا اور بے سہارا نہیں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اُمید تھی اور اکثریت کو توقع کہ موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد ی پروگرام یا تو بند کر دے گی یا اس کا نام تبدیل کر دے گی، مگر جب اسے پہلے بجٹ میں برقرار رکھا گیا تو سب کو حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ شکر ہے اس ملک میں جمہوری اقدار اتنی توانا ہو چکی ہیں کہ خدمتِ خلق کا کام سرفہرست ہے اور گزشتہ منتخب وزیر اعلیٰ کا نام بھی باقی رکھ کے جمہوریت اور ان کی ذات سے محبت کا جو اظہار کیا گیا ہے اس نے ملک میں ہم آہنگی کی نئی فضا پیدا کی ہے۔ ظاہر ہے بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ سے مستفید ہونے والے لوگ اس حکومت سے خائف تھے مگر حکومت نے کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے اس فنڈ میں خاطر خواہ اضافہ کر کے اس کا دائرہ کار مزید بڑھا دیا ہے۔ گزشتہ دنوں گورنر ہائوس میں منعقدہ تقریب میں سیکرٹری بی آئی ایس پی، ڈی جی بی آئی ایس پی اور چیئر پرسن بی آئی ایس پی پنجاب نے اس پروگرام کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے 2.05 ملین گھرانے بی آئی ایس پی کی جانب سے سہ ماہی بنیادوں پر وظائف حاصل کر رہے ہیں جب کہ وسیلہ تعلیم (WET) پنجاب کے سات اضلاع میں کامیابی سے جاری و ساری ہے جس کے تحت تقریباً 442,804 بچے سکولوں میں داخل کرائے گئے ہیں۔ قومی، سماجی و اقتصادی رجسٹری کو ایڈیٹ کرنے کے لئے بہاولپور میں غربت سروے کا آغاز کر دیا گیا ہے جہاں از خود رجسٹریشن کے طریقہ کار کو متعارف کرایا گیا ہے جبکہ لیہ، چکوال، فیصل آباد کے کئی اضلاع میں گھر گھر سروے کرائے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنیادی طور پر پورے پاکستان میں 5.3 ملین خاندانوں کی مالی معاونت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے جس کا مقصد موجودہ وزیراعظم کے غربت کے خاتمے اور خواتین کو بااختیار بنانے کی کاوش کی طرف پیش قدمی ہے۔ خواتین ان وظائف سے گھریلو صنعتکاری سمیت کئی منصوبے شروع کر رہی ہیں جس کی انہیں تربیت بھی دی جا رہی ہے۔ وہ خواتین جن کے بچے چھوٹے ہیں، خاوند بیمار ہیں یا بیوہ خواتین کو معاشرے کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لئے انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی یہ پالیسی خراجِ تحسین اور حکومت کا کردار سراہنے کے لائق ہے۔ پنجاب کے مختلف اضلاع کی 18 مستحقین خواتین جنہوں نے غربت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ان وظائف کی مدد سے اپنی زندگی کو بہتر بنایا، بچوں کو تعلیم دلوائی ان میں بی آئی ایس پی کی طرف سے گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ نے اسناد تقسیم کیں۔ ان خواتین نے جب اپنے حالات کا تذکرہ کیا تو محفل میں بیٹھے بہت سے لوگ آبدیدہ ہو گئے۔ گورنر پنجاب نے اس کاوش کو نہ صرف سراہا بلکہ غریبوں کی مدد اور دور دراز کے علاقوں کی خواتین کو معاشی حوالے سے بااختیار بنانے پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سوچئے ہم سب اگر اپنے روزانہ خرچ سے کچھ رقم پس انداز کر لیں اور اپنے اپنے علاقے، محلے، خاندان میں پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی سرپرستی شروع کر دیں تو ہمارا پورا معاشرہ خوشحالی کی جانب سفر شروع کر دے گا۔ خوشحال لوگ اپنی آمدنی کا ایک دو فیصد بھی غربت کے خاتمے کے لئے وقف کر دیں تو ایک نئے روشن دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی کاوش نہیں۔ غربت کا سب سے بڑا نقصان ان غریب خاندانوں کے بچوں کی صورت میں ریاست کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بھلے تعلیم فری ہو مگر غربت انہیں بچوں سے مزدوری اور گداگری کرانے پر مجبور کر دیتی ہے جو آگے چل کر کئی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ اگر تمام بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر دیا جائے تو وحشت نگری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام ہمارے روشن کل کی ضمانت ہیں۔ آئیے ہم بھی اپنی سطح پر اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کریں۔ درد کی دوا بننے کی کوشش کریں کیوں کہ اسی سفر میں ہماری خوشی مضمر ہے اور یہی راستہ نجات کا بھی ہے۔ خدمتِ خلق ہی اصل عبادت ہے۔ اگر ہمارے اردگرد رہنے والے زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو ہم قصور وار ہیں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اجتماعی ضمیر تمام انسانیت کی مسرت سے بے نیاز ہو کر اطمینان کے رستے کی طرف چل سکے۔ ہم سب اس ضمیر کا حصہ ہیں۔
.