• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قصور میں سینکڑوں بچوں سے جنسی زیادتی اور ان کی ویڈیو بناکر والدین کو بلیک میل کرنے کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے ہر پاکستانی کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ جرائم پیشہ گینگ کے افراد جس طرح بچوں کے ساتھ زیادتی اور ان کی ویڈیوز کے ذریعے بچوں کے خاندان کو بلیک میل کرکے بھتہ وصول کرتے تھے، اس نے معاشرے کی بے حسی اور حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ہیں۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کا یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری تھا اور مقامی لوگوں نے واقعہ کا علم ہونے کے باوجود بے عزتی اور ملزمان کے بااثر ہونے کے ڈر سے خاموشی اختیار کئے رکھی تھی۔ متاثرہ بچوں میں کچھ ایسے بچے بھی ہیں جنہیں کئی سالوں تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ ملزمان، بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بناکر مقامی مارکیٹ، امریکہ اور یورپی ممالک کو فروخت کرتے تھے۔ مذکورہ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کے دبائو پر گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف جن کے صوبے میں واقعہ پیش آیا، نے قصور واقعہ کے متاثرہ بچوں، ان کے خاندان کے افراد اور گائوں کے رہائشیوں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر متاثرہ بچوں اور ان کے خاندان نے اپنے ساتھ پیش آنے والے دلخراش واقعات کی روداد وزیراعلیٰ کو سنائی جنہوں نے انہیں یقین دلایا کہ ملزمان کو ہر صورت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اس سے قبل وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی واقعہ کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ واقعے میں ملوث ملزمان کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور ملزمان کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے۔
قصور واقعہ نے چند سال قبل لاہور میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک اور واقعہ کی یاد تازہ کردی ہے جس میں جاوید اقبال نامی سفاک شخص کے ہاتھوں 100 سے زائد معصوم بچوں کے ساتھ بدفعلی اور قتل کے اسکینڈل نے پورے ملک کو ہلاکر رکھ دیا تھا مگر حالیہ واقعہ اس سے کئی گنا زیادہ سنگین نوعیت کا ہے جس کے منظرعام پر آنے کے بعد حکومت ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے کرنے میں تو لگی ہوئی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ کئی سالوں تک مذکورہ واقعہ سے کیوں لاعلم رہی؟
غیر ملکی میڈیا پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ یہی کچھ قصور واقعہ کے ساتھ ہوا جسے مغربی میڈیا نے بڑھا چڑھاکر اور مرچ مصالحہ لگاکر پیش کیا جس سے دنیا بھر میں نہ صرف پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی بلکہ یہ تاثر بھی ابھرا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ہی بچوں کے ساتھ بدفعلی اور جنسی زیادتی کے مسلسل واقعات پیش آرہے ہیں جن کی روک تھام میں حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ کچھ عرصے قبل غیر ملکی چینل ’’فاکس ٹی وی‘‘ نے پاکستان کو فحش ویڈیو اور فلمیں دیکھنے والوں کا ملک قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں پاکستان کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان نے فحاشی کی روک تھام کیلئے لاکھوں فحش ویب سائٹس کو بلاک کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود فحش ویب سائٹس دیکھنے والوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے جو پاکستانیوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب حکومت نے اسلام مخالف مواد منظر عام پر آنے کے بعد یوٹیوب پر کئی سالوں سے پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ گوگل، یاہو، امیزون اور ہوٹمیل جیسی ویب سائٹس کو حکومتی ادارے مسلسل مانیٹر کررہے ہیں تاکہ اسلام مخالف مواد کی روک تھام کی جاسکے مگر لوگوں میں فحش ویب سائٹس کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان سے یا تو حکومت لاعلم ہے یا پھر آنکھیں بند کئے بیٹھی ہے۔
مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے افسوس کا مقام یہ ہے کہ گوگل (Google) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں دنیا میں فحش ویب سائٹس دیکھنے والوں میں پاکستان کو سرفہرست قرار دیا ہے جبکہ دیگر 8 سرفہرست ممالک میں 6 اسلامی ممالک ہیں جن میں مصر، ایران، عراق، مراکش اور ترکی وغیرہ شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ فحش فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ مذکورہ رپورٹ پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور میں یہ سوچنے لگا کہ ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں اور اسلامی معاشرے کی پاکدامنی پر فخر محسوس کرتے ہوئے دنیا کو یہ باور کراتے ہیں کہ مغربی معاشرہ اخلاقی اعتبار سے زوال پذیری کا شکار ہے لیکن آج سانحہ قصور اور گوگل کی مذکورہ رپورٹ مسلمانوں کے اخلاقی و سماجی اعتبار سے مغربی معاشرے سے بہتر ہونے کی نفی کررہی ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی میڈیا پاکستان کو غیر اخلاقی فلمیں دیکھنے والوں کا ملک قرار دے رہا ہے جو مسلمانوں کیلئے یقینا لمحہ فکریہ ہے۔
انٹرنیٹ سے جہاں لوگوں کو آسانیاں میسر ہوئی ہیں، وہیں اسے معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایسے قوانین مرتب کرے جن کی رو سے فحش سائٹس دیکھنا قابل سزا جرم قرار دیا جائے تاکہ لوگ فحش سائٹس دیکھنے سے اجتناب برتیں اور معاشرے کی اصلاح ہوسکے لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا تو معاشرہ مزید تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ قصور میں پیش آنے والے واقعہ کو میڈیا اپنی ریٹنگ بڑھانے اور سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کیلئے استعمال کررہے ہیں جنہیں ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرنے والے متاثرہ بچوں کے بارے میں یہ فکر نہیں کہ انہیں کونسلنگ کی ضرورت ہے تاکہ یہ بچے پرسکون ماحول میں اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کرسکیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت واقعہ سے جان چھڑانے کے بجائے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرے اور تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہوکر واقعہ میں ملوث ملزمان کو عبرتناک سزا دے تاکہ آئندہ ایسے دلخراش اور بھیانک واقعات رونما نہ ہوسکیں۔
تازہ ترین