• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی جانب سے اپنے من پسندقائدین پر محبت کے پھول نچھاور کرنا، ہر مسلک کے پیروکاروں کی جانب سے اپنے دینی رہنمائوں اور علماء کرام سے قلبی لگائو رکھنا نیز مختلف روحانی سلسلوں سے تعلق رکھنے والے مشائخ عظام کیلئے اُن کے مریدوں کی جانب سے دیدہ و دِل فرش راہ کرنا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ یہ شخصیات براہِ راست عوام سے وابستہ رہتی ہیں۔ یہ قائدین وقتاً فوقتاً سیاسی ، سماجی اور دینی اجتماعات میں اپنے چاہنے والوں سے ملاقات اور خطاب بھی کرتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسا شخص جو راتوں رات عوام کی تقدیر کو تبدیل کرنے کا دلفریب سپنا نہ دِکھا سکتا ہو۔ ملک میں خوشحالی، سُکھ اور چین کی اُمیدوں سے مترنم دیپک راگ بھی نہ الاپ سکتا ہو۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور افراطِ زر کے خاتمے کا نغمہء گل بھی نہ سناسکتا ہو۔ وہ کسی دینی، سیاسی ، سماجی اور دینی جماعت سے بھی تعلق نہ رکھتا ہو اور اِن قائدین کی طرح عوامی اجتماعات سے دلفریب پیرائے میں سحر انگیز خطاب بھی نہ کرسکتا ہو بلکہ وہ خاکی یا کیموفلاج یونیفارم میں ملبوس، سخت ڈسپلن کا پابند ایک جری ، غیور، نڈر ، مجاہد اور پاسبانِ حریت ہو۔وہ اِس قدر ہردلعزیز ہو جائے کہ اُس کیلئے اہلیان وطن کی محبت اور چاہت اَوجِ فلک سے ہمکنار ہوجائے۔ جی ہاں! قوم نے پاسبانِ گلشن جنرل راحیل شریف کو جس عزت و توقیر سے نوازا ہے پاکستان کی تاریخ میںاِس قدر محبت ، چاہت اور احترام سے لبریز جذبات کسی بھی سپہ سالار کے حصہ میں نہیں آئے۔
ماضی میں قومیں اپنے اُن سپہ سالاروں کے سر پر محبت اور عقیدت کے تاج سجایا کرتی تھیں جو اپنی جان سے بے پرواہ دشمنانِ وطن کے منحوس وجود کو نیست و نابود کردیا کرتے تھے۔ اپنے دیس کی سرحدوں کو ناقابلِ تسخیر بنا دیتے ۔ اپنے اہلِ وطن کو نیا عزم، اعتماد اور حوصلہ بخشتے۔ نتائج سے بے نیاز ہوکر ماں دھرتی کی تقدیس ، حرمت اور عفت کی خاطر ہر آخری حد عبور کر تے ہوئے بادوباراں اور طوفان کی زَد میں آئے ہوئے بادباں کو ساحل سے ہمکنار کردیتے تھے۔ تاریخ اسلام میں خلفاء راشدین کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ فاتح فلسطین و شام، طارق بن زیادؒ فاتح اُندلس (اسپین)، صلاح الدین ایوبیؒ فاتح یروشلم کو اُنکی سنہری خدمات کے باعث عالم ِ اسلام میں وہ دائمی عزت و تکریم ملی جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ عظیم کے دوران امریکہ کے جنرل جارج ایس پیٹن اور جنرل آئزن ہاور، جرمنی کے ارون رومیل، برطانیہ کے جنرل برنارڈ منٹگمری اور فرانس کے جنرل چارلس ڈیگال نے بہادری اور جرأت کی جو نادر مثالیں قائم کیں اُنکی وجہ سے وہ آج بھی اپنی قوموں کے دِلوں میں زندہ و جاوید ہیں۔
ماضی میںپاک فوج کے سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان کو مردِ حریت کا خطاب اُس وقت ملا جب اُنہوں نے 6 ستمبرکوبھارتی جارحیت کے جواب میں ریڈیو پر اپنی ولولہ انگیز تقریر میں جرأت مندانہ انداز میں کہا تھا کہ’’....بھارتی حکمراں شروع سے ہی پاکستان کے وجود سے نفرت کرتے رہے ہیں ....ہندوستان کے حکمراں شاید نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کِس قوم کو للکارہ ہے...‘‘۔ لیکن جب وہ محاذ پر جیتی ہوئی جنگ کے ثمرات سمیٹے بغیر ’’معاہدہ تاشقند‘‘ میں ملکی مفادات کے خلاف شرائط مان کر وطن آئے تو اُنہوں نے فیلڈ مارشل کا ٹائٹل تو اپنا لیا لیکن وہ جنگ جیتنے کے باوجود قوم کی آنکھوں میں عزت و تکریم کھو چکے تھے ۔ 1947-48ء میں جنگِ کشمیر کے ہیرو میجر جنرل محمد اکبر خان اور جنگ ستمبر1965 ء میں شاندار خدمات سرانجام دینے والے جنرل اختر حسین ملک کو بھی بیحد پذیرائی ملی۔ جنرل ٹکا خان اور جنرل حمید گل کا شمار بھی پاک فوج کے ہردلعزیز جرنیلوں میں ہوتا ہے۔
قوم کی جانب سے ملک گیر سطح پر عزت و شہرت صرف ایسے ہی سپہ سالارکے حصہ میں آتی ہے جسے پاک فوج کے افسر اور جوان ایک نڈر، بہادر، دلیر، جری، مخلص، محب وطن اور دیانتدار کمانڈر سمجھتے ہوں۔ وہ جو کئی ہزار فٹ کی برف پوش بلندیوں پر جوانوں کے پاس پہنچ کر انہیں گلے لگالے۔ اگلے مورچوں پر جاکر جوانوں کا حوصلہ بڑھائے۔ عید اُنکے ساتھ گزارے۔ اُنکی ہر خوشی اور غم کا ساتھی ہو۔ ہر شہید افسر یا جوان کے جنازے میں شریک ہو۔ ہر زخمی کی عیادت کرے۔ شہید یا زخمی مجاہدوںکے اہلِ خانہ کی ڈھارس بندھائے۔ وہ جو سیلاب، طوفان یا کسی بھی قومی سانحہ اور بحران میں اپنی سپاہ اور قوم کے ساتھ کھڑا ہو۔ جو قومی وسیاسی قیادت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان مثالی ہم آہنگی کا مظہر ہو۔ اگر کوئی سپہ سالار اپنے حاضر سروس، ریزرو اور پیرا ملٹری فورس پر مشتمل چودہ لاکھ سے زائد جوانوں کے دِل جیت لے۔ اُنکی آنکھوں کا تارہ اور ماتھے کا جھومر بن جائے تو پھرپاکستانی قوم بھی ایسے سپہ سالار سے والہانہ عقیدت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جنرل راحیل شریف بلاشبہ پاک فوج کے پہلے سپہ سالار ہیں جنہیں فوج اور قوم کے تمام طبقات کی جانب سے اِس قدر محبت ، چاہت اور احترام ملا ہے۔ ایک طویل عرصہ سے ملک دشمن قوتیںحملہ آور تھیں۔ قوم دہشت گردی کے حصار میں تھی۔ بیچارگی وطن کا سماں تھا۔ شہریوں کی حفاظت تو ایک جانب، جی ایچ کیو، پاک فضائیہ، پاک نیوی، کامرہ و مہران بیس، آئی ایس آئی، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں پر یکے بعد دیگرے حملوں کے باعث ملکی سلامتی دائو پر لگی ہوئی تھی۔ کوئی شخص اور کوئی مقام محفوظ نہیں تھا۔جنرل راحیل شریف نے منصب سنبھالتے ہی بھارتی’’کولڈا سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کے جواب میں ’’عظم نو‘‘ فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔چین اور روس کیساتھ جنگی مشقوں کا فیصلہ کیا۔ آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ۔دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پرپہلی مرتبہ واشگاف الفاظ میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان دشمن سرگرمیوںکو بے نقاب کیا۔ جان کیری کے دورہ جی ایچ کیو کے موقع پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت اوردہشت گردی کے خلاف اِس قدر بھرپور انداز میں موقف پیش کیا کہ امریکہ کو مجبوراً فضل اللہ کو دہشت گرد تسلیم کرنا پڑا۔ پشاور اسکول پر حملے کے فوری بعد کابل جاکر افغان قیادت کو سخت تنبیہہ کی۔ آرمی پبلک سکول کھلا تو استقبالیہ گیٹ پراپنے سپہ سالار کو پا کر طلباء اور والدین حیرت، غم اور خوشی کی تصویر بن کر رہ گئے۔ سانحہ صفورہ پر سری لنکا کا دورہ منسوخ کرکے کراچی پہنچ گئے۔ کراچی کے لوگوں کو خوف سے نجات دلائی۔ اغواء برائے تاوان، بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچایا ۔ اب صورتحال یہ ہےکہ باغی ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ جلاوطن بلوچ مذاکرات پر آمادہ نظر آتے ہیں۔آٹھ سال بعد یومِ پاکستان پریڈ منعقد کی گئی۔ دہشت گردی کے شکار علاقوں میں پہلی مرتبہ عیدالفطر، یومِ آزادی اور یومِ دفاع کی تقریبات قومی جوش و جذبہ کیساتھ منائی گئیں۔
جنرل راحیل شریف نے6 ستمبر کو بھارتی قیادت اورجرنیلوں کو دندان شکن جواب دیکر مایوسی میں مبتلاپاکستانی قوم کو ایک نیا عزم، حوصلہ اور اعتماد بخشا ہے۔ اُنہوں نے کشمیریوں کی خواہشں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کی بات کرکے نظریہ پاکستان سے گہری وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ قوم ایک طویل عرصے سے فوجی قیادت کی جانب سے اِسی جذبہ کے عملی مظاہرے کی منتظر تھی۔ آج قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ پاک فوج کا وقار اُفق کی بلندیوں کو چھورہا ہے۔ پاکستانی قوم، جنرل راحیل شریف کی خدمات کے اعتراف میں والہانہ عقیدت کے پھول نچھاور کررہی ہے۔اُنہیں پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین سپہ سالار کے طور پر عزت وتکریم سے نوازا جا رہا ہے۔ عام شہری کراچی سمیت بیشتر شہروں میں جنرل راحیل شریف کی خدمات کا برملا اعتراف کررہے ہیں۔ اِس موقع پر تاریخ کے دریچوں میںسے جھانکتے ہوئے قومی و سیاسی قیادت اور سپہ سالار کی خدمت میں ایک عرض کرتا چلوں کہ کراچی میں دہشت گردی کیخلاف ایک آپریشن 22سال قبل جنرل نصیر اللہ بابر کی سرکردگی میں بھی ہوا تھا جو باوجوہ تکمیل پذیر نہ ہوسکا۔ آپریشن میں حصہ لینے والے فوجی، رینجرز، پولیس افسران وعملہ اور گواہوں کو چُن چُن کر شہید کر دیاگیا۔ قوم ،اپنی سیاسی اور فوجی قیادت سے صرف ایک ہی یقین دہانی چاہتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ملک گیر سطح پر آپریشن ہرمصلحت کو بالائے طاق رکھ کر مکمل کیا جائیگا۔ آسمان گرتا ہے توگر جائے۔ ملک گیر آپریشن جاری رہنا چاہئے، آخری دہشت گرد کے خاتمے تک۔
تازہ ترین