• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاست جس طرف جا رہی ہے ، اس کے بارے میں سوچ کر مایوسی ہوتی ہے ۔ اس خطے اور عالمی سطح پر بڑی تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں لیکن پاکستان کی قومی سیاسی قیادت میں سے کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں ہے ، جو اس بدلتی ہوئی دنیا میں کردار ادا کر سکے اور پاکستان کو مشکلات سے نکال کر ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑا کر سکے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کوان تبدیلیوں کا ادراک بھی نہیں ہے ۔ تمام معاملات ملک کی غیر سیاسی اسٹیبلشمنٹ پر چھوڑ دیئے گئے ہیں ۔ سیاست دانوں کے ہاتھ سے چیزیں نکلتی جا رہی ہیں اور انہوں نے سیاست کو صرف ذریعہ معاش بنانے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا ذریعہ بنا لیا ہے ۔ پاکستان کے عوام نے جمہوریت اور سیاست کیلئے طویل جدوجہد کی اور عظیم الشان قربانیاں دیں لیکن ایک بار پھر ہم سیاست کی ناکامی کے ایشو پر بات کرنے کیلئے مجبور ہیں ۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ آخر اصل خرابی کہاں ہے اور اسے کیسے دور کیا جا سکتا ہے ۔ تاریخی تناظر میں معاملات کا جائزہ لینا ہو گا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی کی لہر اٹھی تھی ، لوگوں میں تبدیلی کی خواہش پیدا ہوئی تھی اور ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ سمیت پوری دنیا انقلابات کی لپیٹ میں آگئی تھی ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد روس میں انقلاب آیا جبکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین میں انقلاب آیا ۔ افریشیائی بیداری کا طوفان برپا تھا ۔ ماؤزے تنگ ، چوین لائی ، احمدبن بیلا، جمال عبدالناصر جیسے بلند قامت سیاسی قائدین پیدا ہوئے ۔ اس زمانے میں بولان سے گولان تک آزادی کا نعرہ تھا ۔ عالمی سامراج اس تبدیلی سے خائف تھا ۔ نو آبادیاتی طاقتوں نے دنیا کے کچھ ملکوں اور خطوں کو آزادی تو دی لیکن وہاں ایسا بندوبست کیا کہ تبدیلی کا عمل جاری نہ رہ سکے اور ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار رہے ۔ برصغیر بھی ان خطوں میں سے ایک تھا ، جسے آزادی تو دی گئی لیکن کشمیر کا تنازع حل نہ کرکے ایشیا کی بہت بڑی آبادی کو سرد جنگ میں الجھا دیا گیا ۔ پاکستان اور بھارت کو تصادم کی راہ پر ڈال دیا گیا ۔ پاکستان کی نوزائیدہ ریاست میں جس اسٹیبلشمنٹ نےنو آبادی حکمرانوںکی جگہ لی،وہ اسٹیبلشمنٹ اپنے جوہر میں جمہوری اور عوامی سیاست کی مخالف تھی ۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد اس اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے عوام کے بجائے عالمی سامراجی طاقتوں کے مقامی حاشیہ برداروںکا سہارا لیا اور سرد جنگ کے زمانے میں امریکی بلاک میں شمولیت اختیار کی ۔ اسی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ( CENTO ) اور ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن ( SEATO ) جیسے عالمی فوجی اتحاد کا حصہ بنا دیا ۔ مذکورہ بالا عوامل کی وجہ سے پاکستان ایک جمہوری ریاست بننے کی بجائے ایک سیکورٹی ریاست بن گیا اور اس سے نہ صرف ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی مخالف سیاسی قوتیں کمزور ہوئیں بلکہ پاکستان امریکی بلاک کے عالمی مفادات کی جکڑ میں آگیا ۔ سیاسی اداروں کے کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی ادارے بھی آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے چلے گئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس صورت حال کا ادراک کیا ۔ انہوں نے اپنی نئی سوچ اور دنیا کے بدلتے ہوئے رجحانات کو ملا کر اپنی سیاست کرنے کے لئےپاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی ۔ ان کا نظریہ تھا کہ پاکستان کو ایک حقیقی خود مختار ملک بنایا جائے اور پاکستان کے غریب عوام جو اکثریت میں تھے کی زندگی تبدیل کر دی جائے ۔ ان کے دور تک سیاست کسی حد تک نظریاتی تھی ۔ یہاں نظریات کا مطلب اشتراکی یا سرمایہ دارانہ نظریات نہیں ہیں بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ سیاست بامقصد اور لوگوں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ ( Status quo ) والی ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کو چیلنج کیا اور ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ توڑنے کی کوشش کی ۔ بھٹو کی سیاست نے ان قوتوں پر لرزہ طاری کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان قوتوں نے بھٹو کے خلاف محاذ بنا لیا۔ جاگیردار ، سرمایہ دار بیورو کریسی ، رجعت پسند حلقے اور عالمی سامراج سب ایک ساتھ ہو گئے ۔ بھٹو کے دور تک کرپشن ، بیڈ گورننس اور اقرباء پروری جیسی برائیاں سیاست میں نہیں تھیں ۔ ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی حامی قوتیں بھٹو اور ان کی سیاست کو سیاسی طور پر ختم نہیں کر سکی تھیں ۔ لہٰذا انہوں نے بھٹو کو جسمانی طور پر ختم کیا لیکن بھٹو کی سیاست پھر بھی باقی رہی ۔ اس سیاست کو ختم کرنے کیلئے مخالفین نے اپنی سیاست کو مذہبی جنگ میں تبدیل کر دیا لیکن بھٹو کی سیاست پھر بھی ختم نہ ہو سکی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھٹو کی سیاست کو آگے بڑھایا ۔ پیپلز پارٹی کو کبھی انتخابات میں جیتنے دیا جاتا تھا اور کبھی ہرا دیا جاتا تھا ۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی عوامی جماعت تھی ۔ اس کی سوچ تھی ، اس کا نظریہ تھا اور وہ زمین سے جڑی ہوئی تھی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی سیاست سے دور رہیں ۔ اگرچہ ضیاء الحق کے دورحکومت سے کرپشن پاکستان کی باڈی پولیٹکس میں سرایت کر گئی تھی اور آمریت کی چھتری تلے نئی اور کرپٹ سیاسی کھیپ پیدا ہوئی ۔ اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے تدبر سے اپنے والد کی سیاست کو زندہ رکھا۔ وہ 2007ء میں نئی سوچ اور انداز حکمرانی کے نئے فلسفہ کے ساتھ واپس آئی تھیں لیکن انہیں بھی جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا کیونکہ ملکی اور بین الاقوامی قوتیں بے نظیر کی صورت میں دوسرا بھٹو نہیں دیکھ سکتی تھیں ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کسی نے ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کو چیلنج نہیں کیا اور نہ ہی بڑی لڑائی لڑنے کی جرات کی ۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سامراج کی پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹ پر گرفت مضبوط ہوئی ۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر تیسری دنیا کے ملکوں خصوصاً اسلامی ممالک کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا گیا اور خانہ جنگی میں الجھا دیا گیا ۔ پانی مزید گہرا ہوتا گیا ۔ پاکستان پہلے سے زیادہ سیکورٹی اسٹیٹ بن گیا ۔ عالمی طاقتوں کی مداخلت مزید بڑھ گئی ۔ آمریت کی پیداوار سیاست دانوں نے کرپشن ، لوٹ مار ، اقرباء پروری اور مخصوص مفادات پر مبنی ایک نظام قائم کر لیا اور اس ملک کی سیاست کی بنیادی ہیئت تبدیل کر دی اور پرانا سیاسی کلچر باقی نہ رہنے دیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بھی اسی رنگ میں رنگی گئی ۔ اب سیاست صرف پیسے کیلئے کی جا رہی ہے ۔ سیاست کے علاوہ بھی جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ ملکی اور بین الاقوامی ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی قوتوں کے عزائم پورے کرنے کیلئے ہو رہا ہے ۔
اس صورت حال سے پاکستان کو نکالنے کیلئے پہلی اور آخری ذمہ داری اگرچہ سیاست دانوں کی ہی ہے لیکن کوئی قد آور اور صاحب بصیرت سیاست دان موجود نہیں ہے ۔ آج کے سیاست دانوں کے بیانات ، تقاریر اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کوئی نظریہ یا نصب العین نہیں ہے ۔ سیاست دانوں نے خود سیاست کو گالی بنا دیا ہے ۔ ہر کوئی ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ کی سیاست کر رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کیلئے ایک بارنہ صرف پھر جگہ بن رہی ہے ۔ لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں کسی بات سے غرض نہیں۔ انہیں امن چاہئے، وہ بچوں کے لئے روٹی، کپڑے، تعلیم اور دوائیں مانگتے ہیں۔ وہ منتخب ہوں یا غیر منتخب، لوگ جمہوریت کی شکل میں قائد اعظم، بھٹو اور بے نظیر کو دیکھنا چاہتے ہیںاور ان لوگوں کو نہیں جو راتوں رات ارب پتی بن چکے ہیں اور ہوس ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔
ہماری سیاست میں خرابی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت اور حقیقی قومی خود مختاری کے خلاف کام کیا ۔ پاکستان کو داخلی اور عالمی سیکورٹی ایشوز میں الجھا دیا ، پاکستان کو عالمی سامراجی مفادات کی جنگ میں جھونک دیا اور ان لوگوں کو سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی ، جنہوں نے اس صورت حال کو چیلنج کیا ۔ اب کوئی بھی گہرے پانیوں میں اترنے کیلئے تیار نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو ان پانیوں میں اترنے کی جرات ہے اور نہ ہی یہ اندازہ ہے کہ ان پانیوں کی گہرائی کتنی ہے ۔ جو کچھ اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے ، سیاست دان صرف اس پر واہ واہ کر رہے ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں ۔ پانیوں کی گہرائی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حالات کا دوبارہ تجزیہ کیا جائے اور موجودہ سیاسی بیانیہ ( Narrative ) تبدیل کیا جائے ۔ وقت ایک بار پھر بھٹو جیسے سیاست دان کا منتظر ہے ، جسے پانیوں کی گہرائی کا بھی اندازہ ہو اور اس گہرائی میں اترنے کی جرات بھی ہو ۔
تازہ ترین