• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرائیویٹ اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ادا کرنے والے ادارے ایمپلائز اولڈ ایج بنیفیٹس انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) کے ایک ریٹائرڈ صاحب عبدالستار کا خط پیش خدمت ہے۔
’’ہماری جناب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب سے چند گزارشات ہیں:
-1یہ کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس 2014ء میں EOBI پنشنرز کی پنشن 6000 تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا، سال بھر بار بار اپیلوں کے بعد آپ نے 06 اپریل 2015ء کو پنشن 3600 روپے ماہانہ سے بڑھا کر 5250 روپے کردی جبکہ وعدہ 6000 کا تھا۔ کیا حکومت کے عمال اس وعدہ خلافی پر معاف کئے جاسکتے ہیں؟-2یہ کہ حکومت نے ماہ جولائی 2014ء سے 30مارچ 2015ء کے دوران میں واجب الادا جو بقایا جات ادا کرنے تھے وہ بھی ہضم کر لئے، یہ EOBIکے ہم ریٹائرڈ افراد کیساتھ دن دیہاڑے زیادتی کا مظاہرہ تھا ۔
شاہد اکرام اللہ خان، ایک اور ای او بی آئی کی کیٹیگری میں آنے والے ریٹائرڈ ملازم ہیں، اب اسی تناظر میں ان کے احساسات،لکھتے ہیں۔
’’پاکستان میں اس وقت صنعتی پنشنرز کا مسئلہ ایک گمبھیر صورتحال اختیار کر چکا ہے جو ہر سال جون کے بجٹ کا انتظار کرتے ہیں لیکن صنعتی مزدوروں کو کچھ نہیں دیا جاتا، بیمار، بوڑھے اور حاجت مند صنعتی مزدور انتظار کی سولی پہ لٹکے رہتے ہیں۔ میں بڑی دردمندی کیساتھ وزیراعظم اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فوری طور پر EOBI کے پنشنرز کی ماہانہ پنشن کم از کم 10,000 ماہوار مقرر فرمائیں تاکہ یہ پنشنرز بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔(ا گلے 6000کا وعدہ ڈکار گئے،یہ 10,000 مانگ رہے ہیں، اسحاق ڈار صاحب تو بقول شخصے بچوں کی آئس کریم پر بھی ٹیکس عائد کرنے والے ہیں) علاوہ ازیں EOBI کے پنشنروں کو کم از کم 2000روپے ماہوار میڈیکل الائونس دیا جائے (مزید لطیفہ) جس سے وہ بیماری کی صورت میں ادویات خرید سکیں جو زیادہ تر ایک عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں، موجودہ حکومت نے پہلے دو بجٹوں میں بھی اس کا اعلان کیا تھا مگر 2015ء کا تیسرا بجٹ پیش ہوئے بھی چار ماہ سے زائد ہوئے اس اعلان کا سرکاری نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا‘‘۔
پاکستان، ریاست اور معاشرے کے پس منظر میں غیر معمولی مسائل کی آماجگاہ تو بن چکا ہے مگر جہاں جہاں توجہ کر لی جاتی ہے وہاں وہاں مسائل حل بھی ہوتے ہیں، البتہ یہ توجہ جھگی راکھ ہونے یا زندگیوں کا دیا گل ہو جانے کے بعد کی جاتی ہے، دراصل یہ بنیادی طور پر ریاستی بحران ہے، حکمران عمومی طور پر، ابھی تک اپنے اقتدار کے تحفظ کی ناگزیر مصروفیات اور خوف اور ریاستی اہلکار اپنی نافرض شناس جبلت کے دائروں سے باہر نہیں نکل سکے جسکے باعث ہمارا معاشرہ ناانصافی اور تکالیف کے بڑے دنیاوی مراکز میں سے ایک ہے، یوں پاکستان برا نہیں ہم برے ہیں!
ای او بی آئی کے ان ستم رسیدہ پنشنروں کے سلسلے میں انہی صفحات پر کالم نگار نے بھی آہ و فغاں بلند کی تھی، اسے بلند کئے ہوئے 7 ماہ ہو چکے، عملاً اس آہ و فغاں کے اثرات ان دو خطوں کی روشنی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ گو ذمہ داروں کے کانوں پر جوں ضرور رینگی لیکن پہلے مرحلے پراسے موعدہ رقم کی وعدہ خلافی اور پھر ضرورت سے کہیں کم رقم کے تعین کی اذیتوں سے بھر دیا گیا۔یہ کہانی جون 2013ء سے شروع ہوئی تھی جب نجی اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین نے ای او بی آئی کو پنشن کی رقم 5000 کرنے کے سلسلے میں وفاقی حکومت سے ادارے کو احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ جنوری 2015ء میں بھی یہی رونا دھونا جاری رہا، ملازمین کی اپیلیں شائع ہوتی رہیں، خدا کا شکر ہے جون 2015ء کے بجٹ میں حکومت نے ان کی پنشن میں اضافہ کردیا، بحران دراصل دودھ میں مینگنیاں ڈالنے سے پیدا ہوا یعنی وعدہ 6000 کا تھا اعلان 5250 کا ہوا، اس میں بھی 3600 روپے ماہانہ پنشن کی کیٹیگری کے ملازمین شمار کئے گئے اور 5299روپے ماہانہ پنشن پانے والوں کو اس سے محروم کردیا گیا، اب دونوں قسم کے ریٹائرڈ بوڑھے، غریب اور حاجت مند ملازمین اپنا اپنا رونا رو رہے ہیں، اسحاق ڈار بیچارے کیا کریں، زرمبادلہ کے ذخائر سے لے کر روزمرہ ریاستی اخراجات تک انہیں قرضوں کی مالا جپنی پڑتی ہے، وہ ان حضرات کے معاملے پر وقت کہاں سے نکالیں، جو ہوگیا اس پر کیوں نہیں صبر شکر کرتے؟ ادھر صبر شکر کرنے والوں کو مہنگائی اور دیگر ضرورتوں نے ’’مالی مالیخولیا ‘‘ کا شکار کر رکھا ہے، شاید دونوں ہی اپنی اپنی ڈفلی صحیح بجا رہے ہیں!اچھا ایک مستقل دکھ اور ہے، یہ جو ای او بی آئی (ایمپلائز اولڈ ایج بینفیٹس انسٹی ٹیوشن) ہے اس کے پاس اصل میں اربوں کے فنڈز ہیں یہ مسلسل زیادہ بھی ہوتے رہتے ہیں، نتیجے کے طور پر پاکستانیوں کی منڈیروں پر بیٹھے بڑے بڑے آدم خور گدھ ان فنڈز پر مسلسل گھات لگائے رہتے ہیں چنانچہ وہ ان فنڈز میں اربوں کے گھپلے کرنے، اپنی عیش و عشرت میں اڑانےاور قبروں میں پڑے اپنے اپنے دادا کی فاتحہ خوانی کرتے رہے، ابھی گزرے سال ہی کا قصہ ہے، 24ستمبر 2014ء کو ’’ای او بی آئی‘‘ کے بے رحم مالی اسکینڈلز میں سے ایک اسکینڈل کے مرکزی ملزم، ادارے کے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کو سپریم کورٹ اسلام آباد کے احاطے سے ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا، آپ یاد رکھیں، ’’معزز ملزم‘‘ حراستی حالت میں ایف آئی اے کی گاڑی میں بیٹھا ،سر باہر نکال کر دو انگلیوں والا وکٹری کا نشان بنارہا تھا(آہ!بےچارہ چرچل!)ہمارے دانشور سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے اس سے جاکر ملاقات کرکے،ہم پاکستانیوں کو سیاسی انتقام کی کہانی سنائی تھی۔
مزے کی بات ہے ای او بی آئی ورکرز ویلفیئر فنڈز کے اربوں روپے وفاق کی دسترس میں ہیں، وہاں تو ریاستی شخصیات یا افسران مجاز میں سے جو لوگ قانونی رہزنی کی جو تاریخ مرتب کرتے رہے یا اب بھی کررہے ہونگے، قومی خزانے کی ایک امانت سے اپنی زندگی کی خزائوں کو بہاروں کےموسم بدلتے رہے یا بدل رہے ہیں وہ اپنی جگہ،2014کے کسی حصے میں صوبہ پنجاب نے بھی’’صوبائی حقوق‘‘ کے نام پر اس فنڈ سے اپنے حصے کا شور مچایا تھا، آپ کو پتہ ہے مرے کو مارے شاہ مدار، کا محاورہ ای او بی آئی کے لئے ہی ایجاد ہوا تھا۔
قصہ طولانی ہے، ہماری بھی وفاقی وزیر خزانہ سے اپیل ہی ہے،6000کا وعدہ پورا کریں،3600اور 5299دونوں کیٹیگریوں پر اس کا جتنا جتنا اطلاق باقی ہے اس پر عملدرآمد کے احکامات جاری کریں، ہماری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، اللہ آپ سمیت ہم سب کو آئی ایم ایف سے نجات عطا فرمائے، آمین !ثم آمین!
پنشنرز کا کوئی ایک مسئلہ نہیں، پوری تسبیح پڑھی جاسکتی ہے، چند دن گزرے میرے ایک بہت ہی محبی کالم نگار سے پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) کے چند ملازمین کی ملاقات ہوئی، انکا دکھ بھی2013ءسے2015ء کے دورانیے میں ’’اپنی جائز رقم کے حصول کے لئے ابھی تک در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں‘‘میرے محترم دوست نے نیشنل پریس ٹرسٹ سے ایک اخبار’’امروز‘‘ کا ذکر بھی کیا۔ مشرق اور پاکستان ٹائمز کے کارکنوں کو ’’گولڈن شیک ہینڈ‘‘ دیدیا گیا مگر ’’امروز‘‘ کے ملازمین محروم رہے، لیبر کورٹ کا فیصلہ ان کے حق میں ہےمگر اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ فاقوں نے ان کے گھروں میں کس حد تک بسیرا کیا ، میرے دوست یا قلم دل برداشتہ بتاتا ہے’’ان صحافیوں کی خواتین‘‘ لوگوں کے گھروں میں کام کرتیں، بچے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے اور ٹافیاں بیچتے ہیں‘‘۔
تازہ ترین