• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے ,,,ملاقات…غضنفر ہاشمی

پتہ نہیں مجھے یہ بات دل کے نہال خانوں سے نکال کر قرطاس کی طشتری میں سجاکر رکھ دینی چاہئے یا نہیں۔ پتہ نہیں یہ خیال مجھے ذہن کی تحت الثریٰ سے نکال کر ہوا کے دوش پر بکھیر دینا چاہئے کہ نہیں۔ ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے بہت ساری پیشانیوں پر سلوٹیں پڑ جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ پڑھنے والے مجھے غیرمحب وطن ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کردیں۔ بہت ممکن ہے کہ کچھ مجھے اپنے خوابوں کے رومان میں زندہ رہنے والا ایسا شخص تصور کرلیں جو حقائق سے مسلسل آنکھیں چرا رہا ہے۔ جسے اس دنیا اور اس کے تقاضوں، بین الاقوامی تعلقات کی نزاکتوں، عالمی ساہوکاروں اور سودخوروں کی چالوں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی غنڈہ گردیوں اور بڑی طاقتوں کی بدمعاشیوں کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ یہ بھی قرین قیاس ہوسکتا ہے کہ کچھ مجھے ایسے طبقے کی آواز سمجھ بیٹھیں جس کا کام مایوسی اور ناامیدی کی تاریکیوں کو عام کرنا ہوتا ہے لیکن کیا کریں۔
یہ احترام روایت تو کم نہیں ہوگا
ہمارے خون میں شامل ہے کیا کیا جائے
یہ خیال اور خواہش ایک عرصے سے میرے خون کی ریزش اور گردش میں زندہ ہے میرا دل چاہتا ہے کہ کاش ایسا ہو کہ پاکستان کو امداد اور قرضے دینے والے تمام ممالک، ادارے اور فورم قرضے دینے سے انکار کردیں اور ایسی شرائط پیش کردیں جنہیں پورا کرنا ہمارے اختیار اور بس میں نہ ہو۔ میرا دل چاہتا ہے کہ پاکستان کے حکمران جہاں بھی اپنا کشکول لے کر جائیں وہاں سے انہیں مہذب انداز میں جواب ملے کہ آپ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ یہ وہی جواب ہے جو چین کے وزیراعظم نے 1996 میں ہماری امداد کی درخواست کے ردعمل میں دیا تھا ۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ جب بھی ہمارا حکمران قرضہ لینے کے لئے امیر ممالک، ڈونرز یا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس جائے تو انہیں جواب ملے ”جب تک آپ خود، سیاستدان، سول اور فوجی بیوروکریسی اور صنعت کار بیرونی ملک میں اپنے اکاوٴنٹس، انڈسٹری اور پیسہ اپنے ملک نہیں لے کر جائے تب تک ہم سے کسی قسم کی امید نہیں رکھنی چاہئے“۔ میرے اندر یہ آرزو بھی کروٹ لیتی ہے کہ سوئٹزر لینڈ ، ملائشیا، جاپان، کینیڈا، سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، امریکہ ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور اٹلی وغیرہ پر مشتمل ایسے فورم کا قیام عمل میں لایا جائے جو پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال کر پاکستان کے اندر معاشی اصلاحات او خودانحصاری کی تحریک پیدا کرے۔ میرا دل یوں بھی چاہتا ہے کہ کاش ایسے ممالک کا بھی کوئی توانا فورم کوئی جائے جہاں کے بنکوں میں ہمارے سیاست دانوں ، حکمرانوں، اراکین پارلیمینٹ ، سول او فوجی بیوروکریسی او صنعت کاروں کے اکاؤنٹس موجود ہیں اور جو اعلان کردے کہ جب تک اکاوٴنٹ ہولڈر اپنے پیسوں کا اتنے فیصد اپنے ملک میں لے جاکر معیشت کی صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو اس وقت تک کوئی ملک اور ادارہ پاکستان کو کسی قسم کی امداد اور قرضہ جاری نہیں کریگا۔ میری آنکھیں یہ منظر اب کثرت سے دیکھنا چاہتی ہیں کہ اہل اقتدار کو ہر جانب سے قرضوں کے حصول کی کوششوں کے جواب میں ایسی دھتکار ملے جو ان کے ضمیر، خودداری او غیرت و حمیت پر تازیانے برسا سکے۔ جو ان کی سوچ میں کوئی ہیجان او طوفان پیداکردے، ان کے خون میں حمیت او خودانحصاری کی سرخی پیدا کردے۔ ان کے دلوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی آرزو جگادے جس سے ان کی آنکھیں تبدیلی، حوصلے، جرأت اور آزادی کے خواب دیکھنے شروع کردیں۔ میرے اندر سے یہ دعا اٹھ رہی ہے کہ مالک! بیرونی امداد اور قرضے کے چاروں در اس ملک اور سرزمین پر بند کردے شاید چاروں دروازے بند ہونے کی صورت میں کوئی اس ملک کو بچانے کے لئے کچھ سوچ سکے۔ شاید اپنی آسائش گاہوں، عشرت کدوں اور لذت خانوں میں دبک کر بیٹھی ہوئی مخلوق کے اندر اس ملک کا درد پھر سے انگڑائی لے سکے۔ ہوسکتا ہے کہ محض حکومت کرنے کے لئے پیدا ہونے والے انسان نما روبوٹس کے اندر بھی کوئی لہر دوڑ جائے جو انہیں باور کراسکے کہ یہ ملک باقی رہے گا تو ہم رہیں گے۔ یہ ملک نہ ہوا تو حکومت ہوگی نہ اختیار، پہچان ہوگی نہ عزت، سو قربانی دینا ہوگی۔ فصل کاٹنا ہوگی۔ یہ فصل سروں کی بھی ہوسکتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
طوفان تو پہلے بھی آتے رہے لیکن بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا نہ ہوسکا۔ کشکول تھا کہ بڑا ہوتا گیا۔ 70 کی دہائی سے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اس کا انت کوئی نہیں۔ ہر دفعہ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے اس کو بڑا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اس قوم کو پیشہ ور بھکاری بنادیا۔ آج کے حکمران کشکول ہاتھوں میں لیے صدائیں لگاتے پھر رہے ہیں۔ یہ انہی ممالک سے مانگ رہے ہیں جو اس کی آزادی اور خودمختاری کے درپے ہیں۔ دوسری قومیں دوستی اور دشمنی دونوں سے سبق حاصل کرتی ہیں۔ ہم ہیں کہ دوستی میں صرف مانگتے ہیں لیکن اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کرتے۔ اب تو ہماری حالت اس بھکاری کی طرح ہوگئی ہے جو جسمانی اور مالی طور پر بہتر ہونے کے باوجود عادتاً بھیک مانگتا ہے۔ اسے مانگنے کا چسکا پڑ گیا ہے۔ ہم چین سے مانگتے ہیں لیکن ہم سے ایک سال بعد آزاد ہونے والے اس ملک کی حیرت انگیز ترقی کے اسرار پر غور نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو ان آزمائشوں میں نہیں ڈالتا چاہتے جو چینی لوگوں نے اپنے اوپر خود مسلط کرلی تھیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان کے پاس ایک لیڈر تھا، ماؤزے تنگ، جس نے کہا تھا کہ میں اس وقت تک زمین پر سوؤں گا جب تک میرے ملک کا ایک فرد بھی زمین پر سوتا ہے اور آج اسی قوم نے دنیا کی تمام منڈیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس کی معیشت دنیا کی مضبوط ترین معیشت ہے۔ مانگ کر قرض اتارنے سے قرض نہیں اُترا کرتے۔ خودانحصاری سادگی سے آتی ہے فقیری اور قربانی سے ملتی ہے۔ یہی درسگاہ آزادی، خودمختاری عزت، غیرت، خودداری اور حمیت کا آموختہ یاد کراتی ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو ایرانی صدر کے طرز زندگی اور ایرانی قوم کی قربانیاں دیکھ لی جائیں۔ زمین پر سونے اور خادمین کی طرح دلوں پر حکومت کرنے والا احمدی نژاد عالمی بدمعاشوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہا ہے۔ خود انحصاری اور خودداری کوئی ایسی جنس نہیں جو بازار میں مل جائے۔ یہ تو کیڑا ہے جو دماغ میں رینگتا ہے اور بے چین رکھتا ہے۔ وہ کیڑا یہاں شاید نایاب ہے ممکن ہے اقتدار کے محلات کی رہداریوں میں روز کوئی ایسا چھڑکاؤ ہوتا ہو جو اس قسم کے کیڑے مکوڑوں کو ختم کردیتا ہو۔خدا کرے بھیک ملنے والے تمام راستے مسدود ہوجائیں اور یہ قوم کسی طوفان سے آشنا ہوجائے۔ لیکن طوفان تو آپہنچا اور اس طوفان میں ایسی آندھیاں چلیں گی جو محلات، اثاثوں جائدادوں، اکاؤنٹس اور عیاشیوں کے سازوسامان کو تنکوں کی طرح اڑا دیں گی۔ اس سے پہلے کہ ایسا ہو کوئی ہے جو کشکول بردار قافلوں کو جاکر یہ بھی بتادے۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مِری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
تازہ ترین