• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے کالم میں ہمارے ہاں رائج مفاد کی چند اقسام عرض کی گئیں ۔ یاد رہے کہ جیسے ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے ، چاہے اصلی ہو یا جعلی ، اسی طرح مفاد تو مفاد ہوتا ہے ،چاہے جائز ہو یا ناجائز۔ مفاد کی باقی اقسام ملاحظہ فرمائیے ۔
دھرنا جاتی مفاد: دھرنا جاتی یا احتجاجی مفاد کو اپنے مفاد کی خاطر سیاسی مفاد بھی کہہ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ مفکرین سیاسیات دھرنا جاتی اور سیاسی مفاد کو الگ الگ مفادات سمجھتے ہیں۔ دھرنے اور کنٹینر بازی سے جو مفادات وابستہ ہوتے ہیں ،ضروری نہیں کہ وہ سیاسی بھی ہوں ۔ سیاست کے نام پر ’’غیر سیاسی ‘‘ مفادات کے لئے بھی دھرنا بازی کی جاسکتی ہے ، یعنی مقصودیہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرے سے سیاست کی بساط ہی لپیٹ دی جائے ۔ ایسے مفاد کے حصول کے لئے عموماً ان حالات میں کوشش کی جاتی ہے ، جب عوام انتخابات میں کسی پارٹی کو لفٹ نہیں کراتے ۔ عوامی عدالت سے اپنے خلاف فیصلہ آنے پر دھرنا جاتی مفادات سر کھانے لگتے ہیں اور بے چینی ، اضطراب اور اشتعال کا سبب بنتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں منتخب حکومتوں کے خلاف ایسے مفاد پرستوں کے دھرنا جاتی جذبات بھی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ، جنہیں عوام قومی یا صوبائی اسمبلی کی ایک بھی سیٹ دینے پر راضی نہیںہوتے ۔ ان جذبات کی ڈرامائی تشکیل دھرنے کی صورت میں سامنے آتی ہے اور سوشل میڈیا میں ایسی دھرنا باز ی پر جگت بازی ہوتی ہے ۔تاہم دھرنا جاتی مفاد کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیاجا سکتا۔ہماری مختصر تاریخ میں چار دفعہ تو غیر نمائندہ جماعتیں اس احتجاجی اسلوب سے ناجائز مفاد حاصل کرچکی ہیں ، جب خود ساختہ ایمپائروں نے ان کی غلط اپیلوں پر انگلیاں اٹھا کر سارے سیاسی کھیل کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ دھرنا جاتی سیاست سے ایمپائر کی انگلی اٹھے یا نہ اٹھے مگر اس سیاست پر تاریخ کی انگلیاں اٹھتی رہی ہیں اور اٹھتی رہیں گی۔ آج جب موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل با عزت اور وقت پر ریٹائرہو رہے ہیں تو مفاد ہذا کو کافی زک پہنچ رہی ہے ۔
محلے کا مفاد: یہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا بڑا نازک مفاد ہے ، جو اہل محلہ خصوصاً حساس نوجوانوں کو بہت عزیز ہوتا ہے ۔ جب کسی دوسرے محلے کا کوئی نوجوان ان کی گلیوں کے پھیرے لگاتے ہوئے محلے سے کوئی ’’مفاد‘‘ کشید کرتا نظر آئے تو علاقے کے نوجوان جذباتی ہوکر کہتے ہیں ’’ اسیں مر گئے آں؟‘‘ وہ محلے کا مفاد محلے کے اندر ہی رکھنے پر بضد ہوتے ہیں اور اسے باہر جاتا دیکھ کر ان کی رگِ غیرت پھڑک اٹھتی ہے ، حالانکہ یہ دل کے معاملات ہوتے ہیں اور دل جیسے پنچھی کا کیا بھروسہ کہ وہ اڑ کر پڑوسی منڈیر پر جا بیٹھے یا سات سمندر پار پرواز کر جائے ۔ اسے فریقین یا رقیبوں کا عشقیہ مفاد بھی کہا جاتا ہے ، جو بعض اوقات لڑائی جھگڑے پر منتج ہوتا ہے ۔ ایسے میں اہل محلہ اپنے ’’ مفاد‘‘ پر بیرونی حملہ آور کے خلاف تھانے میں مقدمہ درج کراتے ہیں کہ اسے لڑکیوں کو چھیڑنے سے منع کیا تو ہمراہ چار کس نامعلوم ملزمان ہم پر حملہ آور ہوگیا اور ہمیں ناحق مضروب کیا۔ جبکہ وجہ تنازع بننے والا ’’مفاد‘‘ فریقین کو لڑا کر خود صاف بچ نکلتا ہے ،حالانکہ فساد کی جڑ وہی ہوتا ہے ۔ تاہم آج کے دور میں انٹر نیٹ اور موبائل جیسی جدید خرافاتی ایجادات نے محلے کے مفاد کو کافی زک پہنچائی ہے ۔ اہل محلہ دل ہی دل میں کیدو بنے رہتے ہیں اور محلے کا ’’مفاد ‘‘ خاموشی سے بیرون محلہ منتقل ہوتا رہتا ہے ۔
مفاد عامہ : یہ عام آدمی یا عوام کا اجتماعی مفاد ہے ۔ اس مفاد کی وطن عزیز میں ٹکے کی وقعت نہیں اور سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اسے کوئی اہمیت حاصل نہیں۔ سرکار عالمی مارکیٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی ، غربت کے خاتمے ، مہنگائی اور آبادی کے کنٹرول ، عوام کے جان و مال کاتحفظ اور صحت و تعلیم اور دیگر مفاد عامہ کی سہولتوں کو کوئی لفٹ نہیں کراتی۔ غیر سرکاری سطح پر با اثر ہستیاں، سرکاری سرپرستی میں مفاد عامہ کے لئے مختص پارکوں ، شاہراہوں اور سرکاری اراضی پر ناجائز قابض ہوکر پلازے اور مساجد وغیرہ تعمیر کرلیتے ہیں اور مفاد عامہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے ۔ خود عام آدمی بھی اپنے اس مفاد کو غلط پارکنگ ، گندگی پھیلانے اور گلیاں وغیرہ بند کر کے حتی المقدور نقصان پہنچاتا ہے ۔المختصر ! مفاد عامہ ایک مظلوم مفاد ہے جس کے تحفظ کا ہمارے ہاں کوئی انتظام نہیں۔
مضافاتی مفاد: اس کا مطلب ستر فیصد ملکی آبادی یعنی دیہات کا مفاد ہے ۔ اصل میں ہم دیہاتی بھی بڑے مفاداتی ہوتے ہیں ، جو اپنے مفاد کی خاطر لیڈروں کی انتخابی مہم چلاتے ہیں ، انہیں ووٹ دیتے ہیں ، ان کا استقبال کرتے ہیں اور ان کی جلسہ گاہیں بھرتے ہیں ۔جواب میں ہمارے پلے کچھ نہیں پڑتا اور مضافاتی مفاد اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ نمائندے ہمارے ووٹ لے کر غائب ہوجاتے ہیں اور بڑے بڑے لیڈر بھی ہمیں جھوٹے ترقیاتی لارے لگا کر سارا پیسہ شہروں کی سڑکوں پر لگا دیتے ہیں جبکہ ہمارے کچے رستے اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں خاک اڑا کر ’’ مضافاتی مفاد‘‘ کے سر میں ڈالتی رہتی ہیں، حتیٰ کہ انتخابات کا اگلا مرحلہ آ جاتا ہے ۔ حکومتیں مضافاتی مفاد کے مقابلے میں شہری مفاد کومقدم رکھتی ہیں اور مضافاتی مفاد کے ساتھ ترجیحی سلوک میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ ثبوت زیر نظر ہے کہ لوڈ شیڈنگ کا شیڈول ترتیب دیتے وقت شہروں اور دیہات کے درمیان اس کے دورانیے کا اس حد تک فرق رکھا جاتا ہے کہ جیسے دیہاتیوں کو بجلی کی ضرورت ہی نہیں۔ وطنِ عزیز میں مضافاتی مفاد کا بھی وہی مقام ہے جو مفاد عامہ کو حاصل ہے ۔
جماعت کامفاد:اس سے مراد کسی بھی سیاسی جماعت کا مفاد ہے ۔ جماعت کا مفاد صرف اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے کہ اس کی قیادت چیئرمین یا صدر جماعت کے خاندان سے باہر نہ نکلے ۔ چونکہ ہر ایسے خاندان میں قومی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے لہٰذا قوم کے وسیع تر مفاد میں اس مفاد کا بھرپور تحفظ کیا جاتا ہے۔
اول تو جماعت کے اس مفاد پر آنچ آنے کی یہاں روایت ہی نہیں تاہم اگر ناگزیر حالات میں کوئی ’’غیر خاندانی‘‘ لیڈر پارٹی کا سربراہ بن جائے تو جماعت کے مفاد کو بہت زک پہنچتی ہے اور قومی خدمت کا جذبہ ماند پڑ جاتا ہے ۔ اس مفاد کے تحفظ کی خاطر جماعت کے اندرونی انتخابات کرانے سے ہر ممکن گریز کیاجاتا ہے ۔
ترقیاتی مفاد:اس سے مراد سرکاری ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے حاصل ہونے والا مفاد ہے ، جس سے ملک ترقی کرے یا نہ کرے مگر مفاداتی عناصر ضروری ترقی کرتے ہیں۔ وہ بذریعہ گھٹیا میٹریل، گھپلوں اور کمیشن وغیرہ سے جو درجہ بدرجہ مفاد حاصل کرتے ہیں ، اسے ترقیاتی مفاد کہاجاتا ہے ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک میں ہمیشہ ترقیاتی کاموںکاجال بچھارہے تاکہ ملک بھی ترقی کرتا رہے اور ترقیاتی مفاد بھی ۔
باہمی مفاد:اسے ’’وَنڈ کھائو ، کھنڈ کھائو ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ باہمی مفاد کے تحت مل کر کھایا جاتا ہے ، جس میں بڑی برکت ہوتی ہے ۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔

.
تازہ ترین