بتایا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی،پنڈت نہرو، اندرا گاندھی اورلال بہادر شاستری کے ہندوستان کے میگا فلم سٹار عامر خان اور ان کی زوجہ کرن رائو نے تقریباً فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ نریندرمودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور بال ٹھاکرے کی شیوسینا کے ہندوستان کو چھوڑ کر خود اپنی مرضی اور پسند کی جلا وطنی اختیار کریں گے۔ ہجرتوں پر مجبور کئے جانے والے ہندوستانی، پاکستانی، فلسطینی اور کشمیری مہاجرین جانتے ہوں گے کہ اپنی جائے پیدائش، جنم بھومی اور وطن عزیز کو چھوڑنا کس قدر مشکل ہوتا ہے مگر ہندوستان کی ناقابل برداشت عدم برداشت کی شدت میں حالیہ اضافے نے اتنی زیادہ پریشانیاں پیدا کردی ہیں کہ عامر خان جیسے مقبول ترین فلمی اداکار کو ان کی زوجہ یہ مشورہ دینے پر مجبور ہوئی ہے کہ وہ ہندوستان کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیں۔عین ممکن بلکہ قرین قیاس ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کے بالی ووڈ کو امریکہ کے ہالی ووڈ سے بھی زیادہ کامیاب فلمیں بنانے کے قابل بنانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے دلیپ کمار، سید نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی سے سلمان خان اور شاہ رخ خان تک جیسے تمام مسلمان اداکاروں اور فن کاروں کو بڑھتی ہوئی مذہبی اور نسلی عدم برداشت کی وجہ سے اور خاص طور پر مسلمان کے خلاف بڑھتے ہوئے ہندو تعصب کے تحت یہ جلا وطنی اختیار کرنی پڑ جائے۔ قدرے مختلف الفاظ اور لہجے میں یہ پیش گوئی اسلام آباد میں ’’سیفما‘‘ (سائوتھ ایشیا، فری میڈیا ایسوسی ایشن) کے پہلے اجلاس میں ہندوستان کے فلمی ہدایت کار اور فلم ساز نے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہندوستان کی فلم انڈسٹری نے انسان کی انسان سے محبت کے انسانی جذبے کے موضوع پر فلمیں تیار کرنے کی وجہ سے امریکہ، برطانیہ اور اٹلی کی فلموں سے بھی زیادہ اہمیت اور عالمی توجہ حاصل کرنے کی سعادت حاصل کی جب کہ ایک مخصوص سیاسی اور مذہبی رجحان رکھنے والے ’’دیش بھگتی‘‘ کی فلموں پر زیادہ توجہ دینے کی سازش میں ملوث ہیں جن کے ذریعے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات کو تقویت ملے گی اور معاشرہ خطرناک حالات کی زد میں آجائے گا‘‘۔اندازہ ہوتا ہے کہ دیش ان خطرناک حالات کی زد میں آچکا ہے اور دیش کے خطرناک حالات کی زد میں آنے کی وجہ بھی شاید وہی ہے جو اوپر بیان کی گئی تھی۔ پاکستان میں عدم برداشت کی سیاست اور عدم توازن کے رجحانات کی پرورش کی بھی یہی وجہ ہوسکتی ہے جس کی آبیاری اور پرورش جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دنوں میں کی گئی تھی اور ایسے ہی رجحانات نے بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے کاروبار کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ ہندوستان میں عامر خان اور ان کی زوجہ محترمہ کے بیان نے بنیاد پرست ہندوئوں کی جانب سے ردعمل کا طوفان برپا کردیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عامر خان کو ہندوستان نے ہی میگا سٹار بنایا ہے۔ ہندوستان عامر کی مادر وطن ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عامر خان کو ان کی حقیقت پسندانہ اداکاری اور انسانیت پسندی کے رجحانات نے میگا سٹار بنایا۔ جس طرح اولاد کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کی عزت کرے وہاں والدین کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ والدین کا کردار ادا کریں۔ اپنی اولاد کو غلام علی خان جیسے غزل گو کی غزلیں سننے او ر ان کی غنائیت سے لطف اندوز ہونے سے محروم کرنے والے بچوں سے محبت کرنے والے والدین نہیں ہوتے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پڑوسیوں جیسے تعلقات قائم کرنے اور قائم رکھنے کے مشورے دینے والی کتاب کی رونمائی کا اہتمام کرنے والوں کے چہروں پر سیاہی ملنے والے بھی سمجھ دار اور ذمہ دار والدین کے زمرے میں نہیں آتے۔ ہندوستان کے والدین تو پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ گاندھی کے ہندوستان کو بال ٹھاکرے کا ہندوستان بنانے والے بھی ذمہ دار والدین نہیں ہوسکتے۔ ماں وہ ہوتی جو مادرانہ فرائض سر انجام دے رہی ہو۔ اپنے بچوں کو صبح، دوپہر اور شام کو تین وقت بھوک، بے روزگاری اور جہالت کی سزائیں دینے والے ذمہ دار والدین نہیں ہوسکتے۔ قصور عامر خان اور ارون دتی کا نہیں عامر خان اور ارون دتی کی ماں پر ناجائز غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کا ہے جن کی وجہ سے ہندوستان میں صرف نریندرمودی اور بال ٹھاکرے کے علاوہ کوئی بھی نہیں رہ جائے گا۔
ضروری تصحیح
25نومبر کے جنگ میں عالی جی کی رحلت کے عنوان سے چھپنے والے ادارتی نوٹ میں غلطی سے ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے ‘‘والا نغمہ عالی جی کی طرف منسوب ہوگیا ہے۔ قارئین تصیح فرما لیں کہ یہ گیت مشہور نغمہ نگار مسرور انور کا ہے۔