• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑے جنگل کے واسطے یہ خبر روح فرسا تھی کہ چھوٹے جنگل میں اقتدار انتخابات سے مشروط ہو گیا ۔ چھوٹے جنگل میں مسائل کے ادراک اور پھر بقا و ترقی کے واسطے انتخابات کا فیصلہ کیا گیا۔ شیر کے مقابلے میں مگر مچھوں ، لومڑیوں اور گیدڑوں نے اتحاد کیا اور ایک سماجی خدمت گار نےبھولے سے مگر مچھ کو اپنا امید وار قرار دیا۔ مگر کامیاب شیر ہی ہوا۔ بھولے مگر مچھ کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جنگل کے محافظ جنگل پرست سفید شیر پیلے شیر کو شکست دلانے کے لئے بھولے مگرمچھ کے ساتھ ہوں گے۔ مگر سفید شیروں کا فیصلہ تھا کہ ان معاملات میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے ہم اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برت سکتے ہیں۔ لہٰذا بھولے مگر مچھ کی امیدیں بر نہ آ سکیں اور بڑے جنگل میں یہی تشویش کی بات تھی کہ اگر چھوٹے جنگل میں استحکام قائم ہو گیا تو اپنے مفادات حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ بڑے جنگل میں چھوٹے جنگلوں سے مفادات حاصل کرنے کے لئے سفید ریچھ ذمہ دار تھا۔ لہٰذا اس کو چھوٹے جنگل کو عدم استحکام پر لانے کے لئے ہدایات جاری کر دی گئیں۔ سفید ریچھ چھوٹے جنگل کے پیچ و خم ، مختلف جانوروں کی عادات اور ضروریات سے بخوبی آگاہ تھا۔ لومڑی کی عیاری منزل تک پہنچنے کے لئے اہم تھی۔ مخبر طوطے خبر دے چکے تھے کہ بھولے مگرمچھ کو شکست کے بعد کسی کروٹ چین نہیں۔
اس کے مصاحبین اس کو یقین دلا چکے ہیں کہ شیر کی فتح ایک دھوکہ اور فریب نظر ہے۔ سفید ریچھ نے لومڑی سے رابطہ کیا جو موقع کی تاک میں تھی۔ دونوں کی ایک پرفضاء مقام پر ملاقات ہوئی۔ سفید ریچھ نے لومڑی سے اقتدار کی بات کی تو لومڑی نے بتایا کہ شیر اس کو اپنے مصاحبین میں شامل نہیں کرے گا۔ لہٰذا وہ اقتدار میں آنے کی خاطر جنگل کو جلا تک دینے کے لئے تیار ہے۔ سفید ریچھ نے بھی واضح کیا کہ بڑے جنگل کی سرکار شیر کے ساتھ معاملات کرنے میں پریشانی کا شکار ہے۔ لہٰذا بھولے مگرمچھ کو استعمال کرنے کے لئے مشترکہ اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ لومڑی نے برجستہ سوال کیا کہ بھولے مگر مچھ میں اقتدار کو بانٹنے کی صلاحیت نہیں۔ لہٰذا مجھ کو کیا ملے گا؟ سفید ریچھ سفاک مسکراہٹ چہرے پر بکھیرتے ہوئے بولا کہ اگر بھولا شیر کو مارنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر بھلا بھولے کو مارنا کون سا مشکل ہو گا۔ لومڑی کے چہرے پر بھی عیاری رقص کرنے لگی۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ سفید شیروں کی طاقت کے سبب ان کو ساتھ ملانا لازمی تھا۔ مگر جنگل پرست سفید شیر اب کسی سازش کا حصہ بننے کے لئے تیار نہ تھے۔ لومڑی نے تجویز دی کہ حالات ایسے کر دیئے جائیں گے کہ سفید شیر مجبوراً اقتدار پر قابض ہو جائے۔ اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا کہ بھولا اگر اتنا ہی بھولا ہے کہ وہ شیر کو مارنے کی ساز ش کرتا ہے تو اس کو سازش کرنے کے جرم میں سفید شیروں سے مروا ہم دیں گے۔ چھوٹے جنگل کا نظام چلانے میں کلیدی کردار کچھوئوں کا تھا۔ جو بہت سست تھے جن کی وجہ سے جنگل کے دیگر جانور اذیت سے گزرتے تھے۔ سفید شیر بھی اس کے سبب کبیدہ خاطر تھے بھولا مگر مچھ شیر کو گرانے کے لئے اس صورتحال کا ذمہ دار شیر کے اقتدار کو قرار دیتا۔ مگر شیر جانتا تھا کہ کچھوئوں کو یکدم ہٹا دینے سے نظام مزید خراب ہو گا ۔ لہٰذا وہ حالات کی درستگی کے لئے کوشش کررہا تھا۔ جبکہ تنقید بھی برداشت کرتا جا رہا تھا۔ لومڑی بھولے مگرمچھ سے ملی اور بولی کہ جنگل کی ترقی کے لئے آپ ناگزیر ہیں۔ اور شیر کا مارا جانا امر لازم ۔ لومڑی نے سحر انگیز گفتگو سے بھولے مگر مچھ کو رام کر لیا کہ دلدل کے مسائل کی وجہ سے شیر کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ دلدل کا معائنہ کرے۔ شیر دلدل میں چل نہیں سکتا لہٰذا مگرمچھوں کی پشت پر وہ سوار ہوگا۔ جب دلدل کا وسط آجائے تو اس کو پشت پر سے گرا کر غرق کر دیا جائے جو حادثہ لگے۔ بھولے کی آنکھیں اقتدار کے ممکنہ خمار میں ڈوب چکی تھیں۔ لومڑی نے مخبر طوطے کو پیغام دیا کہ بھولا پھنس گیا ہے۔ وہ جیسے ہی حرکت کرے گا تو مشہور کر دیا جائے گا کہ بھولے نے شیر کو قتل کر دیا۔ سفید شیر اس افراتفری میں جنگل کو بچانے کی غرض سے اقتدار پر قبضہ کر لیں گے۔ یہ کہتے ہوئے لومڑی زیرلب مسکرائی اور بولی حالانکہ اس سے جنگل تباہ ہو گا بچے گا نہیں۔ یہ سنتے ہی طوطا اڑ گیا۔ لومڑی شیر کے ہاں آئی اور بولی کہ دلدل میں سہولتیں ناکافی ہیں۔ آپ اس علاقے سے امتیاز برت رہے ہیں۔ جنگل کی یکجہتی کے لئے ضروری ہے کہ آپ دلدل کا دورہ کریں ۔ شیر رضامند ہو گیا۔ بھولا مگرمچھ اپنے ساتھیوں سمیت آیا ۔ اس کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی۔ اور یہ بات شیر کو کھٹک رہی تھی۔ شیر مگرمچھوں کی پشت پر سوار ہو گیا بھولا ہنسا شیر سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اس نے سنا کہ بھولا کہہ رہا ہے کہ عین بیچ میں گرانا تا کہ بچ نہ سکے۔ یکایک شیر بھولے مگرمچھ سے مخاطب ہوا کہ میرا سیاسی جانشین چھوٹا شیر بھی ساتھ ہونا چاہئے۔ تا کہ ہم دونوں دلدل کے معاملات کو سمجھ سکیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اس کو بھی ساتھ لے چلیں۔ مگر وہ ساتھ صرف میرے کہنے پر آئے گا بھولا آخر بھولا تھا سوچنے لگا کہ دونوں کو ساتھ مار دیں گے تا کہ قصہ ختم ہو۔ وہ واپس مڑ گیا کنارے پر آتے ہی شیر پشت سے اترا اور دھاڑا۔ گویا ہوا کہ میں تمہاری سازش سمجھ چکا ہوں۔ بھولا دم بخود رہ گیا۔ شیر واپس پلٹا سفید شیروں کے سربراہ کو طلب کیا اور سب قصہ کہہ ڈالا۔ سفید شیر چپ رہا۔ کھڑا ہوا اور سفید شیروں کا اجلاس طلب کر کے سب معاملہ ان کے سامنے رکھ دیا۔ ایک بوڑھا سفید شیر بولا کہ بچوں یہ سب پہلے بھی ہوا تھا ۔ ہم اقتدار کے مالک بن گئے تھے مگر وقار گنوا بیٹھے تھے۔ ہم پر الزام یہ تک عائد ہوا کہ کیونکہ ہم چھوٹے جانوروں کی زبان تک نہیں بولتے ۔اس لئے ان سے امتیاز کرتے ہیں۔ یہ سنتے ہی سفید شیروں نے بادشاہ شیر کی جانب خالص سپاہیانہ انداز میں چلنا شروع کر دیا۔ اور پروقار مگر تابع فرمان کی حیثیت میں اس کے عقب میں جا کھڑے ہوئے۔ جبکہ دوسری طرف لومڑی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے دمے مرگ بھولے مگرمچھ کو دیکھ رہی تھی۔
تازہ ترین