• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا کہ کاتبوں کے ہاتھوں لکھنے والوں اور لکھنے والوں کے ہاتھوں کاتبوں کی شامت آئی رہتی تھی، کاتب حضرات لکھتے وقت ؟؟محرم‘‘ کو ’’مجرم‘‘ اور ’’مجرم‘‘ کو ’’محرم‘‘ بنا دیتے تھے ، آج کل یہ کام نیب والے کرتے ہیں، ادھر لکھاری حضرات آئے روز کاتب حضرات کی غلطیوں کو بنیاد بنا کر ان کا ریکارڈ لگاتے اور یوں اخباری صفحات پر خاصی رونق لگی رہتی۔ کاتبوں سے لکھتے وقت جو غلطیاں ہوتی تھیں ان میں سے کچھ تو ایسی تھیں کہ لکھنے اور چھاپنے والا دونوں باآسانی اندر ہو سکتے تھے لیکن پریس ڈیپارٹمنٹ عفو ودرگزر سے کام لیتا۔ پنجاب میں جو کاتب حضرات پائے جاتے تھے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق حافظ آباد اور اس کے گردونواح سے ہوتا تھا، ان کا پچپن گائوں میں گائیں بھینسیں چراتے اور جوانی شعر حافظ کی تعبیر میں گزرتی، یہ حضرات دونوں گھٹنوں پر مسطررکھے اور دیوار سے ٹیک لگائے سیاہ روشنائی سے خبریں اور مضامین لکھتے، اس کے ساتھ گپ شپ کا سلسلہ بھی جاری رہتا چنانچہ ان دہری’’ ذمہ داریوں‘‘ کی وجہ سے لکھتے وقت ایسی ’’فحش‘‘ غلطی کرتے کہ پروف پڑھتے وقت پروف ریڈر کے کان کی لویں سرخ ہو جاتیں اور اگر پروف ریڈر کی نشاندہی کے باوجود وہ لفظ اسی طرح چھپ جاتا تو گھر کےبزرگ اس روز اخبار چھپا دیتے اور دروازہ بند کرکے وہ خبر یا مضمون بار بار پڑھتے اور آنسوئوں سے روتے کہ صحافت پر کیا برا وقت آن پڑا ہے ۔
یہاں ایک وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس نوع کی غلطیاں زیادہ تر ’’کاتبوں‘‘ سے ہوتی تھیں، خوش نویسوں سے نہیں، گو سب کاتب خود کو خوش نویس ہی سمجھتے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ہر کاتب کو خوش نویس نہیں کہا جا سکتا تھا۔ مجھے جن خوش نویسوں سے پالا پڑتا رہا وہ اپنے طویل تجربے کی بدولت صرف خوش نویس نہیں رہےتھے بلکہ وہ زبان و بیان کی باریکیوں کو بھی سمجھنے لگے تھے، ان میں سے کچھ تو خود عالم فاضل ہو گئے، چنانچہ اگر کوئی لکھاری زبان و بیان کی غلطی کرتا تو یہ اس کی نشاندہی کرتے ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو اعتماد کی دولت سے کچھ اتنے مالا مال ہو جاتے کہ کسی مضمون میں ازخود تحریف یا اضافہ فرما دیتے اور مضمون نگار کو اس کا علم مضمون کی اشاعت کے بعد ہوتا!
میں نے ایک دفعہ برصغیر کے نامور خطاط اور نہایت قابل احترام شخصیت حافظ یوسف صاحب سے اپنے فنون لطیفہ ایڈیشن کے لئے ایک خصوصی مضمون حاصل کیا۔ حافظ صاحب برصغیر کے صاحب اسلوب خطاط تھے اور ان کا مضمون صفِ اول کے خطاط کے حوالے سے تھا، پروف ریڈر نے یہ مضمون پڑھ کر غلطیاں لگوا کر میرے سپرد کیا، کاپی پیسٹ ہونے کے بعد میں نے سلسلے چیک کرنے کے لئے مضمون پر نظر ڈالنا شروع کی تو اس میں ممتاز خطاطوں کے ذکر کے دوران دو نامانوس نام میری نظروں سےگزرے، ایک مولوی دین محمد اور دوسرا مولوی نور محمد، اگرچہ فن خطاطی کے حوالے سے میرا علم کچھ بہت زیادہ نہیں تھا تاہم یہ نام اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنے تھے اس کے علاوہ حافظ یوسف صاحب کا مضمون کتابت کے لئے دینے سے پہلے اس کے مطالعے کے دوران بھی مجھے یہ نام اس مضمون میں کہیں نظر نہیں آئے تھے اس کے باوجود میں نے اصل مسودہ منگوایا کہ ممکن ہے مجھے غلطی لگی ہو مگر اصل مسودے میں بھی یہ نام کہیں نہیں تھے چنانچہ میں نے اپنے خوش نویس دوست کو بلایا اور پوچھا کہ یہ مولوی محمد دین کون صاحب ہیں ؟ انہوں نے کہا میرے والد صاحب ہیں جی ۔اور یہ مولوی نور محمد؟ انہوں نے جواب دیا ’’میرے تایا جی ہیں جی !‘‘ میں نے کہا ’’حافظ صاحب نے تو ان دونوں کا ذکر اپنے مضمون میں نہیں کیا آپ نے یہ نام از خود کیوں مضمون میں شامل کر دیئے ؟‘‘ بولے ’’حافظ صاحب بھول گئے ہوں گے جی، میں ان سے بات کروں گا ، آپ چلنے دیں جی ؟‘‘ ان کی اس ’’فرینک نیس ‘‘ پر میری ہنسی چھوٹ گئی اور مجھے وہ صاحب یاد آ گئے جنہوں نے قرآن مجید کی کتابت کرتے ہوئے جہاں جہاں شیطان کا ذکر آیا، وہاں اپنے والد صاحب کا نام لکھ دیا، ان کا کہنا تھا کہ اتنی مقدس کتاب میں شیطان کا ذکر کچھ اچھا نہیں لگتا!
اور آج نہ کاتب ہیں اور نہ خوش نویس، ان کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے مگر غلطیاں اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ غلطیاں کمپیوٹر نہیں کرتا،کمپوزر سے سرزد ہوتی ہیں، لطیفے اس میں بھی بہت ہیں مگر وہ پھر کبھی سہی، صرف ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں میں نے ایک بار اپنے عید کے حوالےسے لکھے گئے کالم میں عید ملنے کا ذکر کیا تھا اور لکھا تھا کہ پسلی توڑ معانقوں کے توڑ کے لئے میں نے کچھ موٹے موٹے لوگ تاک کر رکھے ہوتے تھے۔
جن کے مخملی تکیوں جیسے جسموں سے عید ملتے ہوئے ہلکی سی ٹکور ہو جاتی تھی، کمپوزر نے ’’موٹے موٹے لوگ تاک کر رکھے ہوتے تھے ‘‘ کو ’’سوئے سوئے لوگ تاک کر رکھے ہوتے تھے ‘‘بنا دیا مگر مجھے اس کا مزا آیا کیونکہ سوئے ہوئے لوگوں کے بارے میں مجھے یہ شعر یاد آگیا تھا
جاگنے والے تیرا کیا کہنا
سونے والے کو کچھ خبر نہ ہوئی
غالباً کمپوزر کے ذہن میں بھی یہی حوالہ تھا !
اب اللہ کو جان دینی ہے ۔ سارا بوجھ کاتبوں اور کمپوزروں پر ڈالنا سراسر زیادتی ہے، خود لکھاری حضرات بھی اس ’’کارخیر‘‘ میں اپنا حصہ ’’بقدر جثہ‘‘ ڈالتے ہیں ، یہاں جثے سے مراد ان کا قد کاٹھ اور ان کی جسامت نہیں، بلکہ ان کی بدخطی کی ’’جسامت‘‘ ہے۔ جو جتنا بدخط ہے، وہ ان دنوں اتنا ہی کمپوزروں کی جان کا عذاب بنا ہوا ہے جو لکھاری زمانے کے ساتھ چل رہے ہیں وہ تو اپنا کالم یا مضمون خود ٹائپ کرتے ہیں اور اس کی ہارڈ کاپی اخبار یا کسی بھی متعلقہ ادارے کو Sendکر دیتے ہیں لیکن جو میرے جیسے قدامت پسند ہیں وہ اپنے ہاتھ کا لکھا بلکہ بدخطی کے حوالے سے پائوں سے لکھا ہوا کالم ارسال کرتے ہیں چنانچہ کمپوزر بھی ایسی تحریریں کمپوز کرتے ہوئے صرف انگلیوں سے کام لیتے ہیں دماغ سے نہیں اور یوں اگر سائیکل کی گدی کا ذکر ہو رہا ہے تو وہ سوچے سمجھے بغیر سائیکل کی ’’گدھی‘‘ لکھ دیں گے، ویسے تو بدخطی میں ہمارے ہاں ایک سے ایک بڑھ کر ’’جو ہر قابل‘‘ موجود ہے مگر میرے بہترین دوستوں میں سے ایک بہت بڑے اسکالر ڈاکٹر سلیم اختر (ان کی صحت کے لئے دعا کریں وہ ان دنوں بہت بیمار ہیں) کو تو بدخطی میں ڈی لٹ کی ڈگری ملنی چاہئے، موصوف ایک دن ایک غیر شائع شدہ تحریر پڑھتے ہوئے بہت بدمزہ ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے یار میں بھی بہت بدخط ہوں لیکن یہ شخص تو مجھ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا ؟؟برادر مکرم یہ آپ ہی کی ایک پرانی تحریر ہے جو میرے کاغذوں میں سے نکلی ہے اور یہ بات فوری طور پر میں نے آپ کو اس لئے بتا دی ہے کہ آپ اس ’’خطاط‘‘ کو بہت موٹی سی گالی دینے کے موڈ میں لگ رہے تھے ‘‘
غالب نے بھی
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
والا شعر غالباً منکر نکیر کی نیت پر شک کی وجہ سے نہیں کہا تھا بلکہ اسے یہ خدشہ تھا کہ کہیں منکرنکیر بدخط نہ ہوں اور یوں وہ لکھیں کچھ اور پڑھا کچھ اور جائے !
تازہ ترین