• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بچپن سے یہ ضرب المثل سنتا اور پڑھتا آرہا ہوں اور یقیناً آپ بھی یہ ضرب المثل بار بار سن ا ور پڑھ چکے ہوں گے کہ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہوجائے گا لیکن دودھ کی قیمتوں میں تو آئے روز اضافہ ہورہاہے ، دودھ کی کئی اقسام بھی متعارف ہوچکی ہیں جیسے پاؤڈر دودھ، ڈبے کا دودھ، بغیر کر یم دودھ وغیرہ وغیرہ لیکن کم از کم مجھے’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہوتا کبھی نظر نہیں آیا ، مجھے ایک بڑ ے سیاستدان جو گز شتہ روز ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے سلام دعا کے بعد کہنے لگے، دیکھیں ایک سازش کے تحت سیاست دانوں کو بدنام کیا جارہاہے لیکن آپ لوگ جو قلمکار ہیں جو اپنی تحریروں اور الفاظ سے عوام کی رائے بناتے یا تبدیل کرتے ہیں کم از کم آپ لوگوں کو اس سازش کو سمجھتے ہوئے اس سے دور رہنا چاہیے ، سیاست اور سیاست دانوں کے خلاف لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے ، کون اچھا ہے کون برا ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں، میں نے ان سے انتہائی ادب سے کہاکہ جناب آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن کیا یہ ہم نے یعنی قلمکاروں نے کہا ہے کہ سیاستدان جھوٹ بولیں، ایک روز ایسی بات کریں جو انکو سوٹ کرتی ہو اور اگلے ہی روز یوٹرن لے کر ایک نیا مؤقف بیان کرنے لگیں کیا یہ ہم نے کہا ہے کہ سیاست دان سرے محل بنائیں، کہ یہ بھی الزام ہم پر ہے کہ آف شور کمپنیاں بنائیں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر جائیدادیں بنائیں، کیا یہ بھی ہمارا قصور ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی انوسٹمنٹ دوسرے ممالک میں کریں اور دوسروں کو اپنے ملک میں انوسٹمنٹ کا درس دیں اور منافقت کرکے سیاست اور سیاسی عہدوں کا غلط استعمال کریں اور ان کا مذاق اڑائیں، کیا یہ سیاست دانوں کو ہم نے کہا ہے کہ وہ جعلی اسناد اور اپنے جعلی گوشوارے جمع کراکے پارلیمنٹ میں بیٹھ جائیں ۔کیا کمیشن، کرپشن اور چوری بھی ہماری ایماء پر ہوئی ہے ؟ معروف سیاستدان نے میرا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہاکہ ابھی آپ کا گرم اور نوجوان خون ہے لیکن آپ جلد جان جائیںگے کہ سیاستدانوں کو ایک سازش کے تحت بدنام کیا جارہاہے اور پھر ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہو جائے گا، میں نے ان سے سوال کرتے ہوئے کہاکہ کیا پاناما لیکس پر بھی ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہوجائے گا، کہنے لگے وہ تو ہوچکا ہے، اب تو صرف عدالت کا ایک رسمی فیصلہ آنا ہے میں نے کہاکہ جناب وہ فیصلہ کیا ہوگا کہ ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہوچکا اور عد التی فیصلے سے اس پر مہر ثبت ہوجائے گی تو کہنے لگے کہ جناب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو پاکستان سے محبت کی سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے ، لیکن اعلیٰ عدالت میاں صاحب کی معصومیت کا فیصلے دے کر ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ کردے گی جو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوچکا ، ہم دونوں نے قہقہہ لگایااور میں آگے بڑھ گیا ، آگے دیکھا تو ہوٹل کے ایک کونے میں ایک چینل کے ٹا ک شو کے میزبان اور ایک دوسری جماعت کے سیاسی رہنماء بیٹھے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے قہقہے بکھیر رہے تھے میں نے سلام کیا اور ان سے کہاکہ بہت خوش نظر آرہے ہیں، سیاسی رہنماء کہنے لگے ہم نے اس ملک میں انصاف اور کرپشن سے پاک سیاست کا جو نعرہ لگا یاتھا اب ہماری وہ منزل قریب آرہی ہے کیونکہ جلد ہی کرپٹ حکمرانوں کا فیصلہ ہونے والاہے اور عوام کے سامنے ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ ہوجائے گا، میں نے ہوٹل کی اس نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جہاں حکمران جماعت کے سیاسی رہنماء بیٹھے تھے میں نے کہاکہ ان کا تو دودھ بھی مختلف ہے اور اس میں سے جو پانی نکلے گا وہ بھی مختلف ہے تو پھر حقیقی ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ کیسے ہوگا ، اس سے پہلے کہ وہ کو ئی جو ا ب دیتے میں آگے بڑھ گیا جہاں میرے مہمان میرا انتظار کررہے تھے، میرے مہمان غیر سیاسی دوست ہیں مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا بحث چل رہی ہے میں نے انہیں بتایا کہ ہر کوئی کہہ رہاہے کہ ملک میں کرپشن کے حوالے سے ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ‘‘ ہونا چاہیے لیکن ہر کسی کا پیمانہ مختلف ہے اور اس کو جانچنے کیلئے نظریات مختلف ہیں تو میرے مہمان بڑی سنجیدگی سے کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ اب یہ فیصلہ ہوجانا چاہیے کہ کس کس نے اس ملک میں کرپشن کی ہے اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے سیاست اور جمہوریت کی آڑ میں کس کس نے عوام کو بے وقوف بنایا ہے اس میں کسی کو مقدس گا ئے سمجھ کر نہ چھوڑا جائے بلکہ سب کا ایک ہی پیمانے میں احتساب ہونا چاہیے تاکہ نہ صرف ’’دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو‘‘ بلکہ آئندہ کر پشن کے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیئے۔ کیا یہ’’ دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی ‘‘ ہو سکے گا یا یہ محض ایک ضر ب المثل ہی رہے گی۔

.
تازہ ترین