یہ کئی سال پہلے لاہور کی بات ہے۔
سال تو یاد نہیں لیکن ہاں! یہ ضرور یاد ہے کہ ضیا الحق کا دور ہونے کے باوجود ابھی تک نہ تومصدق سانول کی بائیں آنکھ پنجاب یونیورسٹی سے آئے جمعیت کے حملہ آوروں کے ہاتھوں ضائع ہوئی تھی اور نہ ہی نیشنل کالج آف آرٹس کے شعبہ فنون لطیفہ کے استاد اقبال حسین کی ہیرا منڈی کی طوائفوں کی روزمرہ زندگی پر مبنی پینٹنگز کو سرکاری آرٹ گیلری الحمرا سے نکال باہر کیاگیا تھا۔کسی دہریئے کے دل میں دوزخ کا خوف جگا دینے والی لاہور کے موسم گرما کی وہ چلچلاتی دوپہر اتنی بوجھل تھی کہ کرشن نگر کے آوارہ کتے کسی اجنبی پر بھونکنے کے لئے بھی دیواروں کے سائے چھوڑنے کے روادار نہ تھے اورساندہ روڈ سے گزرتے اکا دکا تانگوں میں جتے گھوڑوں کی مانوس سست ٹاپوںمیں تیزی بھی سڑک کنارے باربرداری کے جانوروں کے لئے مختص اتھلے تالابوں کی کائی کی خوشبوں ان کے پسینے سے شرابور نتھنوں تک پہنچنے کے بعد ہی سنائی دیتی۔ ریواز گارڈن کے ساندہ روڈ پر لڑکوں کے ہوسٹل کے نیم تاریک کمرے میں بچھے بستر پر اس کی موجودگی کش لگانے پر سگریٹ کا ایک سرا روشن ہونے پر تھوڑی دیر کے لئے ظاہر ہوتی اور چند لمحوں بعد وہ پھر اپنی سوچ اور کمرے کی نیم تاریکی میں غائب ہو جاتا۔
مجھے یاد ہے کہ وہ اس صبح ہی تھر سے لوٹا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے تھر کی گرم ریت نے اس کی بے ساختہ ہنسی کو بارش کی طرح اپنے اندر سمو کر صحرا کی موت مرے جانور کے خشک پنجر جیسی خاموشی بناکر اگل دیا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ تھر جانے سے پہلے وہ ٹھیک تھا۔ خیر ’’ٹھیک‘‘ تو وہ کبھی بھی نہیں تھا لیکن کم از کم اس کی اظہار کی صلاحیت ٹھیک ہی تھی۔ جانےسے چند دن پہلے اسی کمرے میں ایک دن وہ بولا،’’جگر حسن کوزہ گر (یہ استعارہ آرٹ کالج میں میری سرامکس کی کلاس، میرے نام کے آخری حصے اور اس کی ایک پسندیدہ اردو نظم کے عنوان کا مرکب تھا) بنگال ، اترپردیش، پنجاب، باچا خان کا دیس (اس نے شمال مغربی صوبہ سرحد کو کبھی سرکاری نام سے نہیں پکارا) سندھ اور بلوچستان کے پرانے خسرے (برصغیر ہندوستان کے زرعی زمین کی ملکیت کے ریکارڈ) مغلوں کی فارسی میں ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا کی تاریخ ایک ہے تو یہ پورا خطہ ایک ملک کیوں نہیں؟‘‘ مجھے فوری طور پر اس منطق کا کوئی جواب نہ سوجھا۔ ایک مختصر وقفے کے بعد وہ بولا ’’جگر! ہم جنرل ضیا الحق کے پاکستان کے نہیں بلکہ یونائٹیڈ اسٹیٹس آف انڈس ویلی کے شہری ہیں۔‘‘ اس نے میری جانب فخر سے دیکھتے ہوئے کہا ’’اس ملک کا الگ پاسپورٹ ہونا چاہئے۔ ہر صفحے پر موہنجوڈارو کی ڈانسنگ لیڈی کی ابھری ہوئی شبیہ کے ساتھ۔‘‘ اس وقت تک وہ خاصہ پرجوش ہوچکا تھا ’’تم یہ پاسپورٹ ڈیزائن کرو اور پھرہم دونوں اس ملک کے پہلے دو شہریوں کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہیں‘‘ اور پھر وہ دونوں بازو فضا میں بلند کرکے وجد کے عالم میں دیر تک اپنی مخصوص ہنسی ہنستا چلا گیا۔
لاہور کے گردآلود افق پر سورج ڈھلنے کے ساتھ دن میں گرمی سے سلب زندگی رفتہ رفتہ شہر کی سوکھی رگوں کو آب پاش کرنے لگی۔ زندگی کی ایک ذیلی ورید نے لڑکوں کے ہاسٹل کو بھی ساندہ روڈ کی رگ سے جوڑ دیا اور یوں ہاسٹل کی راہداریوں کی رونقیں بتدریج بحال ہوتی چلی گئیں۔ پھر رات ڈھلنے کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ کمرے سے باہر کاریڈور میں گونجتے بے ساختہ نوخیز قہقہے اور جنوبی ایشیا کی مخصوص زبانیں اور لہجے بتدریج معدوم ہوتے چلے گئے۔ اس دفعہ شہر اسلام آباد تھا اور دن؟ ہاں! یہ وہ دن تھا جس دن پاکستان کے ایک صدر نے ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ کے محافظوں کے ایما پر ایک بار پھر ’’قوم کے وسیع تر مفاد‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک منتخب وزیراعظم کو برطرف کردیا تھا۔
شہر کے کئی بے نام محلوں میں سے ایک میں واقع اوپری منزل کے گرمیوں میں تنور بن جانے والے دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ کے ایک کمرے میں چھائی خاموشی کو جنرل ضیا کے دور کے تھر کے ذکر سے توڑا ’’ محافظ آدھی رات ساتھ کے ڈیرے میں رہنے والے مزارعے کے نوجوان بیٹے کو اٹھانے آئے۔ اس پندرہ سولہ سال کے لڑکے کا جرم بس اتنا تھا کہ وہ بحالی جمہوریت کی تحریک کے لئے لگائے جانے والے بھوک ہڑتالی کیمپ میں تھوڑی دیر کے لئے جابیٹھا تھا۔‘‘ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ ایک گہری سانس لینے کے بعد بولا ’’وہ لڑکے کو ساتھ لے گئے۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا لیکن.....‘‘ وہ ایسے رکا جیسے اگلی بات کے لئے ہمت جمع کر رہا ہو۔ ’’مجھے اب بھی لڑکے کی خوف سے پھیلی آنکھیں اور اس کے باپ کے اپنے سر سے بلند کہنیوں تک جڑے ہاتھوں سے التجا کے منظر خواب میں آتے ہیں‘‘ اور پھر کسی بچے کی معصوم شرمندگی سے اعتراف کرتے ہوئے بولا ’’جگر! کئی سال بیت جانےکے باوجود اب بھی جب یہ مناظر کبھی خواب میں آ جائیں تو باقی رات جاگتے گزرتی ہے۔‘‘ اسلام آباد کے ایک انگریزی روزنامے کی تنخواہوں میں معمول کی تاخیر کی وجہ سے مبارک ورک کی کار کی ایندھن کی سوئی زیادہ تر خاتمے کے نشان سے ذرا اوپر خوف سے لرزا کرتی لیکن اکثر اس سوئی کے خوف میں کسی نہ کسی کی جیب سے خریدے دو سے چار لیٹر ایندھن سے کمی بھی آجاتی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ اس رات کس نے یہ فریضہ انجام دیا لیکن مبارک کی سدا کی پیاسی کار ایندھن کی چسکی لگا کرایک نئے جذبے سے زیرو پوائنٹ پار کرتے آبپارہ کی جانب فراٹے بھرنے لگی۔
بائیں ہاتھ پر اخبار کا دفتر آیا اور گزر گیا لیکن کار میں کسی نے بھی معمول کے مطابق آغا مرتضیٰ پویا کی شان میں بآواز بلند کوئی ’’قصیدہ‘‘ نہ پڑھا۔ اگلی نشست پر ایک اور سوار کے ساتھ بیٹھی ثمینہ نذیر نے مبارک ورک سے سرگوشی میں کچھ کہا جس کے جواب میں مبارک نے اپنےاس مخصوص انداز میں گردن ہلائی جو وہ کسی بھی بات سے اتفاق یا اختلاف کے جھمیلے میں پڑے ہلادیا کرتا تھا۔ اس دورا ن کار ایم این اے ہاسٹل کے سامنے سے گزرتی پہلے کانسٹیٹیوشن ایونیو پر مڑی اور پھر دفتر خارجہ اور سپریم کورٹ کی زیرتعمیر عمارت کے سامنے سے ہوتی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ سب سے پہلے ثمینہ نذیر نے کئی گھنٹوں پر محیط بوجھل خاموشی کو توڑا۔ وہ کار سے باہر نکلی، پارلیمان اور ایوان صدر کی جانب رخ کیا۔ دونوں ہاتھوں کو اپنے منہ کےگرد بھونپو بنایا اور پھر اپنے پھیپھڑوں میں پورے وجود کی قوت منتقل کرتے ہوئے چنگھاڑی:
’’غلام اسحاق خان تو.....‘‘
کانسٹیٹیوشن ایونیو پر رات اپنی مخصوص رفتار سے اور گاڑیاں پہلے آہستہ اور پھر تیز ہو کر گزرتی رہیں۔ کچھ د یر بعد سوائے اس کے سب تھک کر خاموش ہوگئے لیکن سسکیوں کے ساتھ اس کی سندھی زبان میں گالیاں اس کی آواز پوری طرح رندھ جانے کےباوجود رات کے سناٹے میں دیر تک گونجتی رہیں۔اس کے وجود سے سسکیاں، رندھی آواز اور سندھی الفاظ پر مشتمل ناقابل فہم شور سے مجھے ایک دہائی پہلے تھر کے نوجوان کی خوف سے پھیلی آنکھوں کی سفیدی اور اس کے باپ کی ہاتھ جوڑے اپنے بچے کی زندگی کے لئے التجائیں سننے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی بات کروں جس سے اس کی تکلیف کم ہوسکے۔ لیکن میں کچھ نہ بولا۔ پھر کئی سال بیت گئے۔
اس بار شہر نیویارک تھا ا ور دن اتوار 29نومبر 2015 اور جگہ کونی آئلینڈ ، بروکلین میں واقع ایک جنوبی ایشیائی ریستوران کا کانفرنس ہال۔ کانفرنس ہال کے ایک کونے میں بچھی میز پر فریم میں اس کی مسکراتی تصویر لگی تھی اور سامنے کرسیوں پر مختلف پہچانوں کی نمائندگی کرتے مرد اورخواتین بیٹھے تھے۔ ان میں ہندو، سکھ، مسلمان، عیسائی، پنجابی، بنگالی، بندھی، بلوچ، پٹھان، امریکی اور برطانوی افراد شامل تھے۔ ان افراد کے پیشہ ورانہ پس منظر بھی ان کی پہچانوں کی طرح مختلف النوع تھے۔ ان میں یونیورسٹی پروفیسر، تحقیق کار، قلمکار، فنکار، صحافی، فلمساز، انسانی حقوق کے کارکن، اقلیتی برادریوں کے رہنما، سفارتکار اور خوشحالی کوشبہ کی نظر سے دیکھنے والے بائیں بازو کے رومانوی انقلابی شامل تھے۔ ان میں سے بیشتر پہلے بھی نہیں ملے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے ساتھ اپنی یادوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرانے دوستوں کی طرح محبت سے بیان کر رہے تھے۔ یادوں کے اس شفاف دھارے سے بتدریج بھرتے بروکلین کے اس کانفرنس ہال سے باہر نکلتے مجھے اپنے اندر سے آتی ایک سرگوشی سنائی دی۔ ’’جگر! اینانوں مل اے ساڈے یونائٹیڈ ا سٹیٹس آف انڈس ویلی دے شہری نے‘‘ پتہ نہیں بعد میں، میں نےاپنے دوست حیدر رضوی کی مخصوص ہنسی سنی یا نہیں لیکن میں نے اپنے گردانڈس ویلی کے مخصوص بہار کے رنگوں کے لمس کو ضرور محسوس کیا۔ بالکل ایسے جیسے ہولی، عید، ویساکھی اور کرسمس بروکلین میں وقت سے پہلے ہی آگئے ہوں۔
(صاحب تحریر لندن میں مقیم جنوبی ایشیائی میڈیا ایکسپرٹ ہیں۔ انوار بی بی سی اردو سروس سے 2011 تک بحیثیت صحافی منسلک رہے ہیں۔ انوار نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے گریجویٹ ہیں اور انہوں نے انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ گلوبل گورنس میں برکبیک کالج، یونیورسٹی آف لندن سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہے۔ )