• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین دوستی اقتصادی راہداری منصوبہ میں اب دوست ممالک کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ملکوں نے بھی گہری دلچسپی لینا شروع کر دی ہے، روس جو پہلے پاکستان کے گرم پانیوں پر طاقت کے زور سے قابض ہونا چاہتا تھا اب اس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے باضابطہ طور پر ان پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے لئے پاکستان سے درخواست کی ہے۔ روس نے نہ صرف گوادر پورٹ تک رسائی مانگی ہے بلکہ اقتصادی راہداری کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ روس اپنے زیر اثر یورپ سمیت دیگر ممالک کو سی پیک میں شمولیت کے لئے کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ دیگر ممالک اور اقوام کی طرح روس بھی سمجھتا ہے کہ سی پیک کا حصہ بن کر وہ اپنے آپ کو اقتصادی طور پر مضبوط کر سکتا ہے۔ روس نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہے کہ پاکستان اور روس کو ریلوے کے ذریعے جوڑا جائے اس کے علاوہ روس پاکستان میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لئے 2 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے یہ پائپ لائن قطر سے درآمد شدہ گیس کی ملک بھر میں ترسیل کے لئے بچھائی جا رہی ہے اسی طرح سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک بھی سی پیک اور گوادر پورٹ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ پائپ لائن کے ذریعے گوادر سے چین تک تیل برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اسی طرح قطر بھی جو قدرتی گیس سے مالا مال ہے اپنی یہ گیس گوادر بندرگاہ کے ذریعے اقتصادی راہداری کے راستے چین پہنچاناچاہتا ہے۔ چین جو توانائی حصول کے لئے خلیجی ممالک سے گیس اور تیل درآمد کرتا ہے اگر وہ اس راستے سےدرآمد کرے تو اس کے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو گی لہٰذا چین اپنے مغربی حصہ میں گیس اور تیل کی ترسیل کے لئے گوادر کا راستہ استعمال کرنا چاہتا ہے جبکہ اپنے مشرقی حصے کے لئے اس کا زیادہ تر انحصار روس پر ہے۔ روس چین گیس پائپ لائن اسی منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ امریکہ سائوتھ چین کے سمندری راستوں پراپنے اثر روسوخ میں اضافہ کر کے چین پر اپنا دبائو بڑھا رہا ہے بھارت کے ساتھ امریکی دفاعی تعاون بھی اس کی ایک اہم کڑی ہے۔ اسی خطے میں امریکہ کے حلیف ملک فلپائن نے اپنے ملک میں قائم امریکی فوجی اڈے ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے جس سے امریکہ کے جنوبی چائنا سمندر میں چین پر اپنا دبائو بڑھانے کے منصوبے کو دھچکا پہنچنے کا خدشہ ہے۔ امریکہ کے اس منصوبے کو ’’کائونٹر‘‘کرنے کے لئے چین نے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ بنایا ہے اس منصوبے کے تحت چین نے بنگلہ دیش میں 24 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے بنگلہ دیش کی بندر گاہ کو ترقی دی جائے گی۔اسی طرح چین سری لنکن بندر گاہ کی تعمیر و وسعت کے لئے بھی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔سی پیک اور گوادر پورٹ کے منصوبہ کو جلد سے جلد پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔ امریکہ چین کے آبی راستوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے تو چین گوادر پورٹ اور راہداری کو متبادل کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ خطے کی اس تمام صورتحال کے پیش نظر بھارت میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا امریکہ اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے بھارت کو فائدہ ہونے جا رہا ہے یا نقصان؟ اگر روس،پاکستان، چین اور خطے کے دیگر ممالک سی پیک کے ذریعے مزید قریب آ جاتے ہیں تو کہیں بھارت خطے میں تنہائی کا شکار تو نہیں ہو جائیگا۔ بھارت جو اقتصادی طور پر چین کا مقابلہ کرنے کی سوچ رکھتا ہے اس سوچ کو بھی نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ ہے۔بھارتی دانشور وں نے میڈیا میں یہ باتیں کرنا شروع کر دیں ہیں کہ بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ سے تعلقات اور خطے کے ممالک کی معاشی اور دفاعی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو از سرنو ترتیب دینا ہوگا۔
ریاست مقبوضہ جموں کشمیر میں بسنے والے لوگ یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ ان کا مستقبل بھی سی پیک سے منسلک ہے اگر مقبوضہ کشمیر اس منصوبے کا حصہ بن جائے تو ان کو بھی بہت فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ترقی کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی لہر میں دن بدن تیزی آ رہی ہے حالانکہ بھارت کی قابض افواج وہاں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہی ہیں۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نہ صرف حریت کانفرنس کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کیے بغیر مقبوضہ کشمیر میں امن نا ممکن ہے کشمیر کا ہر نوجوان پاکستان کی طرف دیکھ رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ چین پاکستان راہداری منصوبہ ان کے لئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے میں شامل ہو کر مقبوضہ جموں و کشمیر خطے کے ترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھی بار ہا یہ بات کہہ چکی ہے کہ مودی سرکار کو وادی مقبوضہ کشمیر کی نازک صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا ورنہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جس سے واپسی نا ممکن ہے اور بھارت کو خطے کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے بالخصوص پاکستان کیساتھ کشمیر کے ایشو پر فوراً مذاکرات شروع کیے جائیں۔ چین کی پالیسی رہی ہے کہ کسی بھی لڑائی میں حصہ لئے بغیر خود کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنا چاہئے تا کہ آپ کے مخالف خود ہی آپ سے اپنے معاملات طے کرنے کے لئے پہل کریںیہی پالیسی پاکستان کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے پاکستان اقتصادی طورپر جتنا زیادہ مضبوط ہوگا اسے بھی اپنے مخالفین سے حل طلب مسائل میں آسانی ہوگی۔ قوی امکان یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا اُتنی تیزی سے ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی آزادی قریب تر آتی جائے گی اور بھارت پر دبائو بڑھتا چلا جائے گا بالآخربھارت کو نہ صرف کشمیر کا مسئلہ حل کرنا پڑے گا بلکہ سی پیک کا حصہ بننا اس کی مجبوری بن جائے گا۔

.
تازہ ترین