• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سولہ دسمبر کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے مضامین اور کالم پڑھتے ہوئے میں محسوس کر رہا تھا کہ ہمارے لکھاری اور حکمران ان محب الوطن پاکستانیوں کو بھلا چکے ہیں جنہوں نے باغیوں کے درمیان رہتے ہوئے پاکستان کے اتحاد کو بچانے کےلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ہمارے لکھاریوں کا سارا فوکس تاریخ، سیاست اور فوجی پہلو پہ تھا اور ہم نے انسانی پہلو کو پس پشت ڈال دیا۔ہم یہ بھول گئے کہ آج بھی بنگلہ دیش میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے پاکستانی موجود ہیں جو پاکستانی ہونے کی سزا مسلسل 45برس سے بھگت رہے ہیں ۔ہم انہیں بہاری کہتے ہیں جبکہ بنگلہ دیش والے انہیں پاکستانی کہتے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ وہ ہم سے بہتر اور بڑے پاکستانی ہیں جو دیار غیر میں بے پناہ مظالم سہنے کے باوجود پاکستان سے محبت کا دم بھر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے انہیں پاکستان سے محبت کی سزا کے طور پر کیمپوں میں عملی طور پر نظر بند کر رکھا ہے، ان پر شہریت کے ساتھ ساتھ نوکری اور دوسری مراعات کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔وہ بھوک افلاس اور بیروزگاری کا شکار ہیں لیکن پھر بھی ان کی پاکستان سے محبت کم ہوئی ہے نہ ان کی وفاداری کے قدم لڑکھڑا ئے ہیں ۔چند روز قبل میں ایک رپورٹ پڑھ کر کانپ گیا اس رپورٹ کے مطابق ان مہاجر کیمپوں میں پڑے پاکستانی خاندانوں کی لڑکیاں اپنے والدین کا پیٹ پالنے کے لئے عصمت فروشی پر مجبور ہو چکی ہیں۔ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کو متحد رکھنے کے لئے جدوجہد کی تھی ۔بہاری وہ اس لئے ہیں کہ انہوں نے قائداعظم ؒکے فرمان کے مطابق مشرقی پاکستان ریلوے کو چلانے اور حکومت میں خدمات سرانجام دینے کےلئے بہار سے بنگال میں ہجرت کی تھی ۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کےلئے اتنی عظیم قربانیاں دی گئیں کہ ان کا سلسلہ 1947ء سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے ۔شاید ہی دنیا کے کسی ملک کے لئے اتنے لوگ پھانسی چڑھے ہوں جتنے حسینہ واجد نے پاکستان سے محبت کے جرم میں چڑھائے ۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ان اراکین اور لیڈروں کا بھی واحد جرم یہ تھا کہ انہوں نے 1971ء میں پاکستانی فوج کی مدد کی تھی اور اپنے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے جدوجہد کی تھی ۔حیرت ہے کہ انتقام کے اس عمل میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ بھی انصاف کے تمام اصولوں کو پامال کرکے حسینہ واجد کے مظالم کا ساتھ دے رہی ہے۔حسینہ واجد کی حکومت کی انتقامی پیاس بجھتی ہی نہیں۔ اس کی آگ نے ایک طرف بہاریوں بروزنِ پاکستانیوں کے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیا ہے تو دوسری طرف جماعت اسلامی کے زاہدو عابد معصوم حضرات کو پھانسیوں پر لٹکانے کا سلسلہ جاری ہے ۔مگر میرے نزدیک حسینہ واجد حکومت کے مظالم کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کی بے حسی اور سردمہری بھی افسوسناک ہے۔ بقول شاعر؎مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضوکرتے ۔ہم نہ ان پاکستانیوں کو لینے کے لئے تیار ہیں جو بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستانی جھنڈے گاڑے پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں اور نہ ہی ان معصوم لوگوں کی پھانسی پر حکومتی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جنہیں پاکستان سے محبت کے الزام میں رسن و دارپہ کھینچا گیا ہے ۔کتنے ظلم کی بات ہے کہ ہمارے حکمران انہیں جماعت اسلامی کے پلڑے میں ڈال کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں جبکہ پاکستان کے ان شہیدوں میں ایک مسلم لیگی بھی شامل ہے ۔ہم کچھ نہیں کرسکتے مگر حکومتی سطح پر شدید احتجاج تو کر سکتے ہیں۔ناراضی کا ڈر کیوں؟بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت پہلے ہی ہندوستان کےساتھ مل کر پاکستان سے معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے ۔اب تو ہندوستان نے بنگلہ دیش اور افغانستان کو ساتھ ملا کر ہمارے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کر لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ’’بہاری ‘‘ہوں یا جماعت اسلامی کے پاکستان کے نام پر قربان ہونے والے شہدا ء کا پاکستان پہ اتنا ہی حق ہے جتنا ہر پاکستان کا پاکستان پر ہے ۔
کہتے ہیں ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن ہماری ریاست کی حکومت تو ماں کی طرح نہ شہریوں کی فاقہ کشی، جہالت اور علاج معالجے سے محرومی کے سبب موت پر ٹس سے مس ہوتی ہے نہ اپنے شہریوں کو ماں کی طرح اپنے دامن میں پناہ دیتی ہے۔ ہماری ریاست ماں کی مانند ہوتی تو پاکستان کی محبت میں تڑپنے والے بہاریوں کو اپنے دامن میں پناہ دے دیتی۔پاکستان کے نام پر پھانسی چڑھنے والوں کے لئے احتجاج کرتی اور بیرون ملک پاکستانیوں کو احساس تحفظ فراہم کرتی۔ دنیا کے مختلف ممالک کی جیلوں میں سینکڑوں پاکستانی بے یارو مددگار پڑے ہیں سعودی عرب میں پاکستانی مدد کے منتظر ہیں لیکن حکومت کے ایجنڈے میں ان کا کہیں ذکر ہی نہیں ۔اس حوالے سے سب سے زیادہ قابل رحم کیس ڈاکٹر عافیہ کا ہے جسے مشرف کی آمرانہ حکومت نے امریکہ کی خوشنودی کےلئے ان کے حوالے کر دیا ۔امریکہ کا ہر شہری احساس تفاخر سے کیوں سرشار ہوتا ہے ؟کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ دنیا کے جس گوشے میں بھی ہو گا اسکی حکومت اس کےساتھ ہوگی۔آپ نے دیکھ لیا کہ ریمنڈڈیوس پاکستانیوں کا قاتل تھا لیکن ہماری حکومت نے انصاف کے نام پر ناٹک رچا کر کس طرح اسے امریکی جہاز میں بٹھا کر واپس وطن بھجوا دیا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی پاکستانی شہری ہے لیکن امریکہ اسے خدمات کے عوض اپنے ملک لے جانے کےلئے ہماری حکومت پر دبائو ڈال رہا ہے ۔صرف امریکہ ہی نہیں کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی غرض کہ سارے مہذب ملکوں کا یہی وتیرہ ہے ۔ممتاز بیرسٹر محترم نسیم باجوہ صاحب کا کہنا ہے کہ امریکہ کانگرس کے ذریعے ڈاکٹر شکیل کو امریکی شہری بنانے کے بعد پاکستان کو آنکھیں دکھا کر کہے گا کہ آپ ہمارے شہری کو جیل میں نہیں رکھ سکتے ۔حکمرانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ ڈاکٹر شکیل کے عوض پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو مانگ لیں جو ایک طویل عرصہ سے قید تنہائی کاٹ رہی ہے۔ امرکی سفیر بھی کہہ چکا ہے ’’کہ شکیل آفریدی کے بدلے ہم عافیہ کو دینے کو تیار ہیں‘‘ اس موقع سےفائدہ اٹھائیے اور ریاست کو ماں بنائیے کہ پاکستانیوں میں بھی اعتماد اور احساس تفاخر پیدا ہو۔

.
تازہ ترین