وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ دو سینئر ترین سیاست دان اداروں کی تضحیک کر رہے ہیں،سیاسی مقاصد کے لیے اداروں کو بدنام نہ کیا جائے۔
انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقرری میں حکومت کاکوئی عمل دخل نہیں۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کانام ای سی ایل سےنکالنے کی سفارش آئی تھی، جب ٹرائل کورٹ کی طرف سے ای سی ایل سے نام ہٹانے کا حکم آیا تو ان سے سفارش کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس کی پراسیکیوشن کے لیے کمیٹی بنا رہے ہیں، ایگزیکٹ کیس کا تفتیشی افسر بیمار ہے، پراسیکیوشن کمیٹی آئندہ ہفتے بنادی جائے گی۔
چوہدری نثار نے بتایا کہ حکومت نے جعلی شناختی کارڈ کے معاملے پر بہت توجہ دی ہے، پاکستان کی شہریت بیچنے والوں کےلیے کوئی گنجائش نہیں ہے، گزشتہ حکومت نے صرف 500 شناختی کارڈز اور چند پاسپورٹ منسوخ کیے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومتوں نے دیدہ دلیری سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ غیر ملکیوں کو دیے،گزشتہ دور حکومت میں پاسپورٹ انسانی اسمگلنگ کے لیے بھی استعمال ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں صحیح طریقے سے کام کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے، ہم نے تین مہینے میں ساڑھے 9کروڑ غیر رجسٹرڈ سمز منسوخ کیں جبکہ 3 سال میں 32 ہزار400 سے زائد پاسپورٹ منسوخ کیے گئے۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اس سال 2 لاکھ 23 ہزار 512 شناختی کارڈ بلاک کیے تاہم بلاک کئے گئے، شناختی کارڈز میں جو درست ہوں گے وہ بحال کر دیئے جائیں گے،10کروڑ 10 لاکھ افراد کو شناختی کارڈز کی تصدیق کے لیے ایس ایم ایس بھیجے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ملا منصور کا شناختی کارڈ 2005ء میں بنا تھا، جعلی شناختی کارڈ بنانے کے جرم میں نادرا کے سینکڑوں ملازمین کو جیل بھیجا گیا ہے۔
چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ خانانی اینڈ کالیا منی لانڈرنگ کیس میں بہت سارا ریکارڈ ضائع کیا جا چکا ہے اور اس کیس کی تحقیقات کیلئے نئی کمیٹی بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو بد نام کرنے کیلئے ایک تصویر کے حوالے سے سوشل میڈیا میں مہم چلائی جارہی ہے، اس تصویر کے بارے میں ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے۔