قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کی آج اٹھاسی ویں سالگرہ ہے۔ ان کی کرشماتی شخصیت کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی اکاون سالہ زندگی ( جس میں دو سالہ پابند سلاسل زندگی شامل ہے) میں وہ کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے آج ہم سے جدائی کے سنتیس سال بعد بھی وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔
پاکستان بننے کے بعد بے شمار سیاسی پارٹیاں معرض وجود میںآئیں لیکن قائد عوام کی پاکستان پیپلز پارٹی ہی وہ واحد پارٹی ہے جو اس ملک میں عوام کی حمایت سے بار بار اقتدار میں آئی۔ بھٹو ایک عظیم رہنما تھے اور ان کے خلاف ایک ایسی سازش کہ جس نے ان کی زندگی چھین لی اور انہیں ہم سے جدا کردیا ہمارے لئے ایک عظیم سا نحہ ہے۔ میں مسلم اُمہ کے آج کے حالات دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کاش ذوالفقار علی بھٹو آج زندہ ہوتے تو مسلم ممالک انتشار کا شکار ہونے کی بجائے باہمی اتحاد و یگانگت کے گہرے رشتے میں پروئے ہوئے ہوتے اور ہم آپس میں دست و گریباں ہونے کی بجائے اپنے دشمنوں سے نبرد آزما ہوتے۔ ہماری عمر کے سب لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو نے بطور وزیر اعظم مسلم امہ کے اتحاد کا بیڑہ اٹھایا تو ان کے پیش نظر عالمی جبر و استبداد سے نجات حاصل کرکے مسلمانوں کے وسائل مسلم امہ کیلئے استعمال میں لا کر مسلمانوں کو نا قابل تسخیر بنانا تھا۔ انہوں نے تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک میں پاکستانی عوام کیلئے روزگار کے دروازے کھولے اور ان مواقعوں کی وجہ سے ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اقتصادی ترقی کی اور اپنے لئے دنیا کی برادری میں بہتر مقام حاصل کیا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے کہ آج بفضلِ خدا اس ملک میں جمہوریت بھی ہے، آئین پاکستان بھی ہے اورآئین کے تحت ادارے بھی اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں پاک چین دوستی جس کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو کی عظیم جدوجہد اور تاریخی قربانی کا ثمر ہے۔ ہماری تاریخ گواہ ہے اور ہمیشہ گواہ رہے گی کہ اس عظیم قائد، جس نے اس ملک میں ہر خاص و عام کو نہ صرف حقوق دئے بلکہ ان کے حقوق کو آئینی اور قانونی تحفظ بھی دیا، وہ خود تمام حقوق سے محروم ہو کر آمریت کے ہاتھوں تختہِ دار پر چڑھ گیا لیکن عوام کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔
اگر ہم ذوالفقار علی بھٹو شہید کی جدوجہد اور قربانیوں پر نظر ڈالیں تو یہ ایک کرشماتی شخصیت کی طلسماتی داستان محسوس ہوتی ہے جسے بھٹو نے عمل کے روپ میں ڈھال کر اس ٹوٹے پھوٹے ملک اور بکھری تکھری قوم کو ایک مضبوط اور مستحکم ملک و قوم کی شکل عطا کی ۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں کی داستان بہت طویل ہے لیکن ہمارے لئے یہی کم نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش کا دن اس ملک میں جمہوریت کی آبیاری اور آمریت کی رخصتی کا دن ہے۔ خود ذوالفقار علی بھٹو نے آمریتوں سے سفاکی بے رحمی سے لڑ کر اور اپنی جان کا نذرانہ دے کر جمہوریت اور عوام کے حقوق کا الم سر بلند کیا۔ اور پھر بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے ضیاالحق جیسے بے رحم آمر کو تاریخ میں دفن کردیا اورآج اس ملک میں آمر اور آمریت کا نام لیوا کوئی نہیں ہے اور یہ بھٹو اور بھٹو کے فلسفے کی عظیم فتح ہے۔ قائد عوام کی بہادر بیٹی بے نظیر بھٹو نے بھی پاکستان اور اس کے عوام کیلئے وہ کر دکھایا کہ جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس بہادر خاتون نے مایوس کن وقت میں قوم کو حوصلہ دیا اور اسے آمریت کے زلت آمیز اندھیروں سے نکال کر جمہوریت کی روشنی میں لا کھڑا کیا۔
ہمیں فخر ہے اور ہم یہ بات فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفہِ جمہوریت کے پیروکار ہیں اور ہم نے جمہوریت کیلئے ہمیشہ قربانیاں دیں اور ہم اب بھی جمہوریت کی خاطر ہر قربانی دینے کیلئے تیارہیں۔ ہمارے لیڈروں کی قربانیوں نے ہمیں آمریت اور جمہوریت کے درمیان فرق اچھی طرح سمجھا دیا ہے اور اس لئے ہم اس ملک میں آزاد اور مضبوط جمہوریت کا خواب پورا کر کے ہی دم لیں گے۔ اب عوام کے ساتھ ساتھ ادارے بھی جمہوریت کی اہمیت اور حیثیت کو سمجھ رہے ہیں اور انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ آئین کی پامالی در اصل ملک کی پامالی کے مترادف ہے ۔ جمہوری قوتیں اب بھٹو کے فلسفے کو سمجھ چکی ہیں اور وہ ہر گز کسی بھی آئین سےگریز اقدام کے حق میں نہیں اور یہ سوجھ بوجھ اور احساس جمہوریت کے روشن مستقبل کی دلیل ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش کے دن ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم ان کے جمہوری اصولوں اور کی ہمیشہ پاسداری کریں گےاور جمہوریت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے اپنی جدوجہد ہمیشہ جاری رکھیں گے