کراچی(ٹی وی رپورٹ)پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ سلمان حیدر وغیرہ کو کسی سرکاری ایجنسی نے نہیں اٹھایا ہے، جنرل راحیل شریف کی بطور اسلامی فوجی اتحاد سربراہ تقرری سے متعلق حتمی بات نہیں ہوئی ہے،ریٹائرڈ جنرل نے راحیل شریف سے بات کی توا نہوں نے کہا مجھے پروپوزل ملا ہے،اس پر ابھی ڈسکس کروں گا۔فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا ، دہشتگردی کیخلاف مقاصد حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے فوجی عدالتوں کا نظام کچھ عرصہ مزید چلایا جائے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔پروگرام میں پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری ،پیپلز پارٹی کی رہنماروبینہ خالد اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی سے بھی گفتگو کی گئی۔شیریں مزاری نے کہا ہے کہ لوگوں کو غائب کرنا جمہوریت نہیں،فاشزم اور آمریت کا طریقہ کار ہے،اگر کسی نے کوئی قانون توڑا ہے اسے گرفتار کر کے ٹرائل کیا جائے، لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ادارے شامل ہیں تو ان کا احتساب لازمی ہے،راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے سے قبل حکومت سے این او سی لینا چاہئے،حکومت نے جس طرح معلومات جاری کیں لگتا ہے وہ جنرل راحیل شریف کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔روبینہ خالد نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملہ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے، پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے باہر سرکس لگا ہوا ہے، سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کا ٹرائل سائبر کرائم بل کے تحت کیا جائے ۔عصمت صدیقی نے کہا کہ حکومت پاکستان کے ایک خط لکھ دے تو عافیہ واپس آسکتی ہے، امید ہے کہ وزیراعظم میری بیٹی کو واپس لے کر آئیں گے۔ شیریں مزاری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کوشش کرنا حکومت کا فرض بنتا ہے، وزیراعظم کو امریکیوں سے کیا ڈر ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے خط بھی نہیں لکھ سکتے ہیں،حکومت عافیہ صدیقی کی باقی سزا پاکستان میں پوری کرنے کیلئے امریکی حکومت سے کہہ سکتی ہے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کو دو سال نہیں ہوئے ہیں،انہیں اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے سے قبل حکومت سے این او سی لینا چاہئے، اگر جنرل راحیل شریف کی تقرری نہیں ہوئی تو خواجہ آصف نے کیوں کہا کہ ان کا تقرر ہوگیاہے۔شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں اس شرط کے ساتھ بنائی گئی تھیں کہ حکومت دو سال میں کرمنل جسٹس سسٹم کو ٹھیک کرے گی، حکومت ہمیں بتائے فوجی عدالتوں میں توسیع کیوں کرنا چاہتی ہے، حکومت پارلیمنٹ کو فوجی عدالتوں کی کارکردگی، انسداد دہشتگردی عدالتوں کی ناکامی اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے بریفنگ دے، حکومت کرمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کیلئے ٹائم فریم دے،پاناما کیس میں پی ٹی آئی کی ہار قوم کی شکست ہوگی۔روبینہ خالد نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کی پیشکش پر سوچ سمجھ کر اور حکومت مشاورت سے فیصلہ کرنا چاہئے، فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملہ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے، اس کے فائدوں اور کمزوریوں پر بحث کے بعد ہی حتمی فیصلہ کیا جائے، جیوڈیشل سسٹم کا مذاق اڑایا جارہا ہے، ایک پارٹی کچھ تو دوسری پارٹی کچھ اور بولتی ہے۔سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ سلمان حیدر وغیرہ کو کسی سرکار ی ایجنسی نے نہیں اٹھایا ہے، اگر کسی ایجنسی نے ایسا کیا ہے تو غلط کام کیا ہے،سوشل میڈیا پر اگر کسی نے غلط کام کیا ہے تو اسے سائبر کرائم بل کے تحت ٹرائل کیا جاسکتا ہے، اگر ایک خط لکھنے سے عافیہ صدیقی واپس آسکتی ہیں تو وزیراعظم ضرور لکھ دیں گے، امریکی حکومت عافیہ صدیقی کی رہائی میں دلچسپی رکھتی ہو تو کسی خط کی محتاج نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کل ایک ریٹائرڈ جنرل نے راحیل شریف سے بات کی توا نہوں نے کہا ابھی کچھ نہیں ہوا ، مجھے پروپوزل ملا ہے اس پر ابھی ڈسکس کروں گا،جنرل راحیل شریف بھی اس معاملے کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوں گے۔عصمت صدیقی نے کہا کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے سب نے مجھ سے وعدے کیے، وزیر اعظم نواز شریف نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور عافیہ صدیقی کو واپس لانے کیلئے آیا ہوں، مجھے اب بھی امید ہے کہ وزیراعظم میری بیٹی کو واپس لے کر آئیں گے، حکومت پاکستان کے ایک خط لکھنے کی دیر ہے اور عافیہ واپس آسکتی ہے، وزیراعظم پتا نہیں کیوں ایک خط لکھنے میں اتنی تاخیر کررہے ہیں، امریکی صدر اوباما صدارتی دفتر چھوڑنے سے قبل عافیہ صدیقی کو معافی دے سکتے ہیں اب تک ایک ہزار لوگوں کو وہ معافی دے چکے ہیں۔