اسلام آباد(خصوصی رپورٹر،خصوصی نمائندہ)ایوان بالا میں وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے فرقہ واریت سے متعلق ریمارکس پر اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا اور ایوان سے واک آئوٹ کرگئی۔ منگل کوچوہدری نثار علی خان اور اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کے درمیان الفاظ کی جنگ کے باعث ماحول کشیدہ ہوگیا جو اپوزیشن کے واک آئوٹ پر جا کر ختم ہوا۔ وفاقی وزیر داخلہ نیشنل ایکشن پلان، اپنی ذات پر حملوں کی وضا حت اور چار افراد کے اغوا سے متعلق حکومت کی جانب سے وضاحت دینے آئے تھے۔ تاہم اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد اپوز یشن لیڈر اعتزاز احسن کی جوابی تقریر پر دوبارہ جواب دینے کیلئے کھڑے ہوئے اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ کچھ دہشتگرد کالعدم تنظیمیں ماضی میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس سے رابطے میں تھیں ان کی وہاں کی تصاویر میرے پاس ہیں ہم نے ان تنظیموں سے متعلق ایکشن کیا تو کچھ فرقہ واریت جس میں شیعہ سنی کا مسئلہ بھی تھا، میں ملوث تھیں اور یہ مسئلہ ساڑھے 13 سو سال سے ہے۔ ان ریمارکس پر سینیٹر تاج حیدر اور کرنل (ر) طاہر مشہدی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کا یہ مسئلہ ساڑھے13 سو سال سے نہیں ہے۔ وزیر داخلہ نے غلط کہا ہے ہم احتجاج کرتے ہیں اور ایوان سے واک آئوٹ کرتے ہیں، چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی انہیں روکتے رہے مگراپوزیشن واک آئوٹ کرگئی۔ وزیر داخلہ نے وضا حت کی کہ میں نے ایسا نہیں کہا، حقائق کے منافی بات نہیں کی اگر میری بات غلط ثابت ہوگئی تو میں ایوان سے معافی مانگ لوں گا۔ جس کے بعد نماز مغرب کا وقفہ کر دیا گیا۔اس دوران چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے قائد ایوان راجہ ظفر الحق سے کہا کہ وہ اپوزیشن کو نماز مغرب کے وقفے کے بعد مناکرلائیں۔ قبل ازیں و فاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایوان بالا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان انتہائی مقدس ادارہ ہے۔ یہاں کی تقریر اور چوک میں کی گئی تقریر میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکومتیں بنتی رہتی ہیں کسی کے ماتھے پرنہیں لکھا کہ کسی نے ہمیشہ حکومت میں رہنا ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور جمہوری اصولوں کی بنیاد ہے۔ یہاں سیریس ایشو ڈسکس ہوتے ہیں۔جو لوگ بدقسمتی سے چند دنوں میں اغوا ہوئے ہیں ایک کاتعلق اسلام آباد اور 3 کا پنجاب سے ہے۔ یہ تینوں واقعات پنجاب میں ہوئے۔ ہم پنجاب حکومت سے رابطے میں ہیں۔دو لوگ اکٹھے تھے۔ان کی ایف آئی آر درج ہوئی ایک کیلئے الگ ایف آئی آر درج ہوئی۔6 تاریخ ساڑھے8 بجے رات کا واقعہ ہے۔ کورال چوک سے آگے سائیڈ پراس کی گاڑی کو روکا گیا اور سڑک کے سائیڈ پر انہیں پہنچایا گیا ایک گھنٹے کے بعد انہی کے فون سے ان کے گھر فون آیا تھا۔ جس میں تسلی دی گئی ساتھ یہ بھی کہا گیا میری گاڑی وہاں پر ہے۔ اس سے ان کے گھر والوں کو پریشانی ہوئی۔ ساڑھے11 بجے پولیس کو اطلاع دی گئی، سیف سٹی کے ذریعے ہم نے واقعہ کو دیکھا۔ سیف سٹی کا منصوبہ صرف اسلام آباد کیلئے ہے۔مری روڈ اور کورال تک بڑھا رہے ہیں۔ چائنیز کمپنی سے رابطے میں ہیں، اس قیمت میں ہمیں کیمرے دینے چاہئیں۔ کیمرے کےذریعے مانیٹر کیا گیا۔ ویگو گاڑی ان کا پیچھا کررہی تھی۔ اس سے آگے کیمرے نہ تھے۔ 10 منٹ کے بعد ویگو گاڑی واپس آتی ہے اور ایئرپورٹ کی جانب جاتی ہے ہم 48 گھنٹے کام کررہے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔ پروفیسر صاحب بخیریت واپس آجائیں۔ میں نے ایک سنیئر افسر کو ان کے گھر بھی بھجوایا ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ حکومت اس گھنائونے جرم میں شریک لوگوں کا پیچھا کرے گی۔ پروفیسر صاحب کو بخیریت واپس لانے کی کوشش کرینگے۔ کچھ شواہد ہیں قبل ازوقت نشاندہی سے تفتیش پر فرق پڑ سکتا ہے۔ تفتیشی صحیح سمت پر ہے میں خود دیکھ رہا ہوں۔ پنجاب حکومت سے جو شواہد ملے ہیں ایک واقعہ 4 اور دوسرا 6 تاریخ کا ہے۔ عجیب پس منظر ہے ایک واقعہ کا، جب اغوا ہوگئے تو ان کا میسج آیا کہ چند دوست گھر بھیج رہا ہوں میرا لیپ ٹاپ ان کے حوالے کر دیں۔ گاڑی گھر آئی اور لیب ٹاپ ان کے حوالے کردیئے گئے۔ وہ لیب ٹاپ لیکر چلے گئے۔ پنجاب حکومت ترجیح بنیادوں پر اور وفاقی حکومت بھی دیکھ رہی ہے۔ یقین دلاتا ہوں کہ تفتیش کو منطقی انجام تک لیکر جائیں گے۔ مغویوں کو بخیروخوبی واپس گھر لائیں گے۔ بطور وزیر داخلہ میں نے حکومت کی پالیسی واضح کی ہے۔ لاپتہ افراد والا کوئی معاملہ ہماری پالیسی نہیں ہے نہ ہی ہم اس کسی بات کو برداشت کرینگے۔ ہم نے بہت سے لاپتہ افراد کو ساڑھے 3 سال میں برآمد کیا ہے۔ کوئی مہذ ب ملک اس قسم کی حرکت کا سوچ نہیں سکتا۔ تفتیش میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے 2002 سے 2006 تک حکومت کی پالیسی اگرچہ نہ تھی تاہم بہت ساری خرابیاں اس دور کی تھیں اس وقت پالیسی کہیں اور بنتی تھی۔اب پالیسی یہاں بنتی ہے ایوان میں بنتی ہے۔ میں نے اسی ایوان کو نیشنل پلان کے حوالے سے چار تفصیلی بریفنگز دی تھیں،میں نے ہر ایک کو کھلابولنے کا موقع دیا تھا،ہرایک سوال کا جواب دیا تھا۔ ایک پارٹی کے رہنما نے میری تقریر کے پہلے یا بعد کوئی پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے نہ ہوئے۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے یہ کہا ہے کہ کراچی ائیرپورٹ پر حملہ ہوا اور اُس کی انٹیلی جنس شیئرنگ کی گئی تھی۔ گیٹ تک کا پتہ تھا۔ یہ وزیرداخلہ کی نااہلی ہے نیشنل ایکشن پلان پر کام نہیں ہوا یہ سب کچھ کہا گیا۔ کاش یہ جرات ہو کہ سامنے بات کی جائے۔ دوسرے دن بات کرنے کا کیا مقصد تھا۔ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہم باخبر لوگ ہیں ہم قانون ساز اور ملک کے ممبرہیں۔ کیا دائرہ کار ہے صوبے کا اوروفاق کا کیاہے۔ کاش ہم اپنی تقریر اور یہاں پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں کے دائرے کا تعین کر لیا کریں غلط فہمی ڈالنا غلط ہے۔ یہ ایوان وفاق کی علامت ہے۔ صوبے کی خود مختاری تو آپ نے واضع کی تھی ساڑھے 3سال میں بار بار کہہ چکا ہوں میں نے سر نیچے کر کے انٹر سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے کام کیاجائے۔ میں نے کبھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کی۔ سندھ کی حکمران جماعت سے تلخ و شیریں بیانات چلتے رہتے ہیں تاہم ورکنگ ریلیشن شپ مکمل ہے۔ یہی صورتحال کے پی کے کے ساتھ بھی ہے۔ میں نے کراچی آپریشن کیلئے 23جولائی 2013کو کراچی کا پہلا دورہ کیا پہلے رینجرز ہیڈکوارٹر گیا پھر سی ایم ہاؤس گیا اور پھر گورنرسے ملا۔ میں نے قائم علی شاہ سے کہا تھا کہ کراچی کا آپریشن ضروری ہے۔ آپ کی ذمہ داری ہے آپ کو فائدہ ہو گا۔ ہم مل کر چلیں گے مثبت پوائنٹ آپ کے ہوں گے میں کریڈٹ نہیں لوں گا یہ میری غلطی تھی۔ ایک ماہ بعد فاروق ستار کا بیان آیا کہ کراچی کو آرمی کے حوالے کر دیا جائے دوسرے دن میں نے کہا کہ نہیں سول آرمڈ فورسز کراچی آپریشن کریں گی اور کپتان وزیراعلیٰ سندھ ہوں گے، سیاست کو ایک طرف رکھ کر وفاق اور صوبے نے آپریشن کیا، بہت پیش رفت ہوئی، میرے خلاف بیانا ت آئے۔ وفاقی حکومت کے پاس کیا اختیار ہے کہ وہ آپریشن کرسکتی ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد انٹیلی ایجنسی شیرنگ ساڑھے 3سال میں جتنی ہوئی ہے وہ پوری تاریخ میں نہیں ہوئی۔ سب سے زیادہ سندھ اور کے پی کے کے ساتھ شیرنگ ہوئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب بار بار شکایات بھی کرتے گئے۔ شکارپور کا واقعہ ہوا میں نے کہا تھا کہ ایک ماہ تک ہم اُن تک پہنچیں گے اور 15دن میں اُن تک پہنچ گئے۔میں نے آئی بی کے سربراہ کو مبارکباد دی تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں اپنے سیاسی مخالفین کے پیچھے نہیں لگایا۔ کریڈٹ میرے ذمے نہیں لیکن الزامات میرے ذمے دیتے ہیں۔ میں نے احتجاج کبھی نہیں کیا۔ ہمارا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ تھی، آج پوری دنیا میں دہشت گردی کا گراف بڑھ رہا ہے۔بحث شواہد پر کرائی جائیں۔میرا یا میری وزارت کا موازانہ اور کارکردگی کا موازانہ پچھلی حکومت سے کریں آسمان سے نہ کرائیں۔2005کے بعد پچھلے سال دہشت گردی کے واقعات کم ہیں۔ایک سال 754 واقعات ہوئے ہیں۔ یہ زیرو ہونے چاہئیں۔ پچھلے دوسال 1100واقعات ہوئے تھے۔ میں نے آج تک سندھ کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا۔