لاڑکانہ( بیورو رپورٹ) لاڑکانہ پریس کلب پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مسلح گروپ نے حملہ کر دیا، توڑ پھوڑ کی اور دھمکی دی کہ صحافیوں نے ضمنی انتخاب میں بلاول بھٹو زرداری کےمخالف امیدواروں کی بات کی تو اس سے بھی زیادہ برا حشر ہو گا۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنماء و صوبائی وزیر سہیل انور سیال نے کہا کہ لاڑکانہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی منفی پروجیکشن کی وجہ سے پریس کلب کے عہد ے داروں کے خلاف کارروائی کی ضرورت پیش آئی لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور یہاں منفی رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔بعدازاں پولیس اور مقامی انتظامیہ نے پریس کلب کو سیل کر دیا۔ منگل کی صبح مسلح افراد کے ایک بڑے گروپ نے پریس کلب لاڑکانہ پر دھاوا بول دیا اور وہاں موجود عامل صحافیوں پر تشدد کے بعد پریس کلب کے صدر اور چیئرین ایگزیکٹو کمیٹی کے دفاتر پر بزور اسلحہ قبضہ کر لیا۔ مسلح افراد کی رہنمائی کرنیوالے شفن مشوری اور ظفر ابڑو نے کہا کہ اگر کسی بھی صحافی نے بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ضمنی انتخابات میں مخالف امیدواروں کے نام بھی لئے تو اس سے بھی زیادہ برا حشر ہو گا۔ لاڑکانہ ڈویژن کے صحافیوں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔دریں اثناء پیپلزپارٹی کے رہنماء و صوبائی وزیر سہیل انور سیال نے کہا ہے کہ لاڑکانہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی منفی پرو جیکشن کی وجہ سے پریس کلب کے عہدےداروں کے خلاف کار روا ئی کی ضرورت پیش آئی۔ وہ منگل کی شام لاڑکانہ پریس کلب کے ایک وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔ وفد کی سربرا ہی لاڑکانہ پریس کلب کے صدر ایس اقبال بابو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں ان صحافیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جو پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ہونے والے ترقیاتی کاموں کی مثبت رپورٹنگ کریں گے۔ لاڑکانہ پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے اور یہاں منفی رپورٹنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔دوسری جانب مقامی صحافیوں نے صوبائی وزیر کے اس موقف کی سختی سے نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ صحافت پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی اچھے کام کی مثبت اور غلط کام کی منفی رپورٹنگ کے لئے آزاد ہیں ۔صوبائی وزیر نے وفد کو یہ بھی بتایا کہ شفن مشوری ان کے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھتا ہے اور پریس کلب کے معاملے میں اس کا عمل عوام کی امنگوں کے مطابق ہے۔