علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا،برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر،ایک بار پھر نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں پر اس انداز میں برق گرائی کہ7مسلمان ملکوں کے باشندوں پر امریکہ کے دروازے بند کردئیے اور باقی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو بھی’’دہشت گردی‘‘ کے ممکنہ الزام میں ایک طرح سے کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ برق ایسے بھونڈے انداز میں گرائی گئی کہ درست امریکی ویزا اور گرین کارڈ ہولڈر خواتین و حضرات کو بھی ا مریکی ہوائی اڈوں پر روک لیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس متعصبانہ اقدام کی امریکہ میں بھرپور مذمت کی گئی اور نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ بلکہ ساری دنیا کو بتایا گیا کہ امریکی ضمیر ا ور امریکی شعور دونوں جاگ رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے کہا بھی ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ غیر قانونی حکم واپس لے۔
ہوائی اڈوں پر جب درست ویزا رکھنے کے باوجود مسلمانوں کو روکنے کی خبریں آئیں تو امریکی عوام نے ہوائی اڈوں پر شدید احتجاج کیا۔ ہر احتجاج میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔ ا ن احتجاجوں میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بوڑھے گورے امریکی، کالے امریکی، یہودی،عیسائی اور مسلمان سبھی شامل تھے۔ ان احتجاجوں میں ممبران سینیٹ، ارکان کانگریس اور کئی مشہور شخصیات نے بھی شرکت کی۔ امریکہ کی قائمقام اٹارنی جنرلسیلی یٹیسنے تمام سرکاری وکلاء کو ہدایت کی کہ وہ کسی عدالت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹریول بین پالیسی کی پیروی نہ کریں کیونکہ یہ امریکی قانون و اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اٹارنی جنرل کو ملازمت سے فارغ کردیا ہے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے امریکی ہوائی اڈوں پر پھنسے ہوئے مسلم مسافروں کو اپنے ملک آنے اور ان کے لئے عارضی ویزا کے احکامات جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے بعد کینیڈا کی ایک مسجد پر دہشت گرد حملہ ہوا جس میں 6مسلمان شہید اور 17زخمی ہوئے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں بھی امریکی صدر کی پالیسی پر شدید تنقید کی گئی اور احتجاج کیا گیا۔لندن سمیت بہت سے برطانوی شہروں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے مظاہرے ہوئے اور امریکی صدر کی برطانیہ کا دورہ روکنے کے لئے ایک آن لائن ڈیمانڈ پر دس لاکھ سے زائد لوگوں نے دستخط کئے۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے ڈونلڈ ٹرمپ کو یاد دلایا کہ ان کا یہ اقدام جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ ساری دنیا سراپا احتجاج ہے اور جن کے حوالے سے احتجاج کیا جارہا ہے ان کے حکمران اور عوام منقارزیر پر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قابل مذمت حکم نامے پر دستخط کرنے کے بعد سعودی شاہ اور مصری صدر سے ٹیلی فون پر بات کی مگر غیر ملکی میڈیا کے مطابق ان مسلمان حکمرانوں نے ٹرمپ کے حکم نامے کی مذمت تو کجا اسے زیر بحث لانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ مسلمانوں اور عربوں کی تنظیمیں او آئی سی، گلف کواپریشن کونسل اور عرب لیگ مہر بہ لب ہیں۔ مسلمان حکمران چپ، مسلمان عوام چپ، مسلمان اہل دانش چپ، مسلمان علماء چپ، مسلمان میڈیا چپ کوئی چپ سی چپ ہے۔ وہی چپ جس کے بارے میں میر تقی میر نے کہا تھا؎
رات محفل میں تری میر کھڑے تھے چپ چاپ
جیسے تصویر لگادے کوئی دیوار کے ساتھ
حیرت تو یہ ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردوان بھی چپ ہیں جو ایسے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور دل کی بات کو لب تک لے آتے ہیں۔یا خدا! یہ کیساقحط الرجال ہے عالم اسلام میں، کہ عملی احتجاج نہ سہی فکری انداز میں بھی کوئی پرزور اور فکر انگیز آواز بھی نہیں ابھری، ان حالات میں پاکستانی وزیر داخلہ چودھری نثار کا بیان غنیمت ہی سمجھا جائے گا جس میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی متعصبانہ سوچ و اپروچ سے دہشت گردی کے خلاف عالمی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔عمران خان پہلے تولو پھر بولو سے مکمل طور پر کنارہ کشی کرچکے ہیں۔ اتنے سنجیدہ موضوع پر انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہہ دیا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ امریکہ پاکستانیوں کو ویزا نہ دے تاکہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کرسکیں۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں ڈالر شوکت خانم کو دینے والے امریکی پاکستانیوں نے عمران خان کے اس بیان کو بہت ناپسند کیا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ چندیا سو چند ہزار دہشت گردوں کی سزا ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کیونکر دی جاسکتی ہے۔ امریکہ و یورپ میں آباد مسلمانوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں بالعموم تاثر یہ ہے کہ وہ دل دردمند رکھتے ہیں اور دوسروں کے کام آنے کو اپنے لئے باعث اجر و ثواب اور باعث مسرت و انبساط سمجھتے ہیں، اگر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے گلے پڑنے والی جنگوں سے عزت بچا کر باہر نکلنا چاہتا ہے اور ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچنے والے امریکی دفاعی بجٹ کو کم کرنا چاہتا ہے تو اس کا یہ طریقہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسرائیل ’’گریٹر امریکہ‘‘ نہیں مشرق وسطیٰ میں عربوں کے بغیر گریٹر اسرائیل چاہتا ہے۔اس وقت عالم اسلام جس گرداب میں گرفتار ہے اور مسلسل جس دلدل میں دھنستا جارہا ہے اس کا شاید مسلم حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں۔ حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر والے فلسفے کی جگہ عرب و عجم کی کشاکش نے لے لی ہے۔ اپنے اپنے مسالک کی حفاظت اور اسے آگے بڑھانے کے لئے یمن، شام اور عراق میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کتنا قابل افسوس اور تشویشناک ہے۔ اسرائیل کی نگاہ اپنی یہودی ریاست کو دور دور تک پھیلانے اور فلسطینیوں پر آئے روز عرصہ حیات تنگ کرنے پر ہے۔ ادھر انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم کشمیری مسلمانوں کو جینے کا حق دینے پر تیار نہیں۔ اس وقت کی عالمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے امت مسلمہ کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہئے اور اس کے احوال و معاملات درست کرنے پر توجہ دینا چاہئے۔ پاکستان کے بعض دانشوروں اور سابق سفارتکاروں کا خیال ہے کہ ہم کب تک
خنجر چلے کسی پر تڑپتے ہیں ہم امیر
کی تصویر بنے رہیں گے۔ ہمیں بھی اپنے گھر تک محدود ہوجانا چاہئے اور اول و آخر پاکستان کی ہی بات کرنی چاہئے۔ مجھے حیرت ہے اس سوچ پر یہ تو پاکستان کو تنہا کرنے والی بات ہے۔اس وقت پاکستان اور ترکی کو مل کر قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہےاور سعودی عرب و ایران کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو افہام و تفہیم سے حل کرانا چاہئے۔ مسلمانوں کے حق میں چلنے والی ساری دنیا کی احتجاجی لہر میں چپ کا روزہ توڑ کر مسلم قیادت اور عوام کی شمولیت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
امریکہ کی واجب الاحترام مسلم تنظیمCAIRکے سینئر عہدیدار ڈاکٹر عظمت نے مجھے پٹس برگ سے بتایا کہ جس طرح سے دوسرے مکاتب فکرو مذاہب سے تعلق رکھنے والے امریکی و یورپی عوام نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی آئندہ پہلے سے بڑھ چڑ ھ کر ان کے دکھ سکھ میں شامل ہونا چاہئے موجودہ صورتحال کا مسلمانوں کیلئے یہی سب سے بڑا سبق ہے۔
.