• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ’’سی پیک‘‘ کی اہمیت اب دو ہمسایہ ملکوں کی سرحدوں سے نکل کر ہزاروں میل دور یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک تک نمایاں ہو چکی ہے۔ اور متعدد ملکوں کے حکمران اس منصوبے میں شمولیت کی خواہش اور دلچسپی کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس منصوبے کی افادیت بڑھتی جا رہی ہے اور یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’سی پیک‘‘ مستقبل کا ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہوگا۔ جس کے اثرات اس منصوبے میں شامل ممالک کے ساتھ ساتھ منصوبے سے باہر ملکوں پر بھی پڑیں گے۔ باقاعدہ آغاز اور عملدرآمد سے قبل ہی بین الاقوامی شہرت اور توجہ حاصل کرنے والے دنیا کے اس عظیم منصوبے کی ’’باگ ڈور‘‘ یا باالفاظ دیگر ’’کمان اینڈ کنٹرول‘‘ پاکستان اور چین کے پاس ہے اور منصوبے کے حوالے سے نمایاں اور مرکزی کردار پاکستان کا ہوگا کیونکہ سی پیک کا داخلی دروازہ ’’درہ خنجراب‘‘ اور خارجی دروازہ ’’گوادر‘‘ دونوں پاکستان میں ہیں۔ اس لئے اس منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اور انحصار پاکستان پر ہوگا۔ اور چونکہ دنیا کی معیشت، تجارت اور حتیٰ کہ بین الاقوامی سیاست پر اثر انداز ہونے والے اس میگا پروجیکٹ میں پاکستان کو قائدانہ کردار ملنے جا رہا ہے۔ کیا پاکستان منصوبے کو آگے بڑھانے کے لئے مطلوبہ انتظامات اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہو سکے گا؟ کیا منصوبے کے اثرات اور ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے حکومت پاکستان کی جانب سے بہتر پالیسی اور موثر حکمت عملی بنائی گئی ہے؟ کیا سی پیک سے واقعی پاکستان کے تمام علاقوں میں یکساں ترقی ہوگی؟ ان سوالات کا جواب اس وقت صرف دعوئوں یا اعلانات میں تلاش کرنا بے سود ہو گا اور جب اس منصوبے پر پوری طرح عملدرآمد اور تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تب ساری صورتحال واضح ہوجائے گی۔
فی الوقت سی پیک کی آمد آمد کے موقع پر جہاں ملک بھر میں جگہ جگہ ’’معاشی انقلاب‘‘ کے پیشگی شادیانے بجائے جا رہے ہیں وہاں منصوبے سے متعلق سوالات کے ساتھ ساتھ خدشات، شکایات اور تحفظات نے بھی جنم لیا ہے۔ پاکستان اور چین کی حکومتوں کے مابین متعدد اجلاسوں اور طویل غور و خوض کے بعد جب دنیا کی تاریخ کے اس سب سے بڑے بین البراعظمی منصوبے کا باضابطہ اعلان ہوا تو پاکستان کا روایتی دشمن بھارت کانپ اٹھا۔ دبے الفاظ میں امریکہ نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی۔ مگر پوری دنیا میں اس منصوبے کی بڑھتی ہوئی افادیت اور مقبولیت نے بھارت کے منفی تاثرات اور بے جا اعتراضات کو زائل کردیا۔ لہٰذا بین الاقوامی سطح پر تو منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ فی الحال نظر نہیں آتی۔ البتہ پاکستان کے اندر بعض حلقوں اور علاقوں کی طرف سے سی پیک کے روٹ اور اس میں شامل منصوبوں سے متعلق کچھ شکایات اور تحفظات ضرور ہیں۔ چونکہ گلگت بلتستان کو سی پیک کے گیٹ وے کا درجہ حاصل ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ 5اکتوبر 2016کو قومی اخبارات میں شائع ہونے والی سی پیک کے منصوبوں کی فہرست میں گلگت بلتستان کا ذکر تک نہیں۔ حال ہی میں بیجنگ میں پاکستان اور چین کی سی پیک کی جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی (جے سی سی) کے اجلاس کے بعد جی بی کے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزراء متواتر یہ نوید سنا رہے ہیں کہ ’’سی پیک میں گلگت بلتستان کے بھی 2منصوبے شامل کر لئے گئے ہیں‘‘ جن میں ’’دیامر بھاشا ڈیم اور پہنڈر غذر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ‘‘ کے نام سامنے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ جی بی کی صوبائی حکومت کا ان دونوں منصوبوں سے کوئی تعلق کوئی واسطہ نہیں۔ یہ منصوبے واپڈا کے ہیں۔ اور واپڈا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ کئی سال کی فیزیبلٹی اور اب فنڈز مختص ہونے کے بعد ان منصوبوں پر تعمیراتی کام کا آغاز بھی واپڈا اپنی نگرانی میں کروائے گا۔ اور تکمیل کے بعد ان دونوں منصوبوں کا کنٹرول بھی واپڈا کے پاس ہوگا۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کو چاہئےکہ وہ شونٹر مظفر آباد روڈ، گلگت استور روڈ، گلگت اسکردو روڈ، گلگت چترال روڈ اور جی بی کے تمام 10اضلاع میں بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس کو سی پیک میں شامل کروانے کے لئے اپنا تمام تر اثرو رسوخ اور کوششوں کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان سے فوراً اور براہ راست ملاقات کر کے انہیں اس بات پر قائل کریں کہ اگر سی پیک سے ملک کے تمام صوبوں اور علاقوں میں ’’یکساں ترقی‘‘ اور معاشی خوشحالی کے وعدے اور دعوے کو سچ ثابت کرنا ہے تو پھر سب سے پہلا حق گلگت بلتستان کا ہے جہاں پہلے پاکستان اور چین کو حقیقی طور پر ہمسائیگی کے رشتے میں منسلک کرنے اور دونوں ملکوں کی لازوال اور بے مثال دوستی کو دوام اور استحکام بخشنے والی عظیم شاہراہ قراقرم تعمیر ہوئی۔ جسے دنیا کے آٹھویں عجوبے کا نام بھی دیا گیا۔ اور اب جب کہ دنیا کے ’’نواں عجوبہ، سی پیک‘‘ نے بھی گلگت بلتستان ہی میں جنم لیا ہے، اس لئے گلگت بلتستان کے عوام کو اس عظیم منصوبے کے ثمرات سے مستفید اور فیضیاب ہونے کے لئے لازمی طور پر مواقع اور سہولتیں مہیا کی جائیں۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف گلگت بلتستان میں مثالی ترقی اور حقیقی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا بلکہ1947میں ڈوگرہ استبداد سے آزادی حاصل کر کے پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے سے لے کر اب تک آئینی حیثیت کا تعین نہ ہونے کے باعث پائی جانے والی احساس محرومی کا بھی کافی حد تک ازالہ ہو جائے گا۔ یہاں اس حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور بھارت کی مذموم سازشوں اور مکروہ پروپیگنڈوں کے باوجود گلگت بلتستان کے لوگوں کا اپنے ملک پاکستان کے ساتھ وفاداری اور جان نثاری میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔ گلگت بلتستان کا بچہ بچہ پاکستان کا سپاہی ہے۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بھارت نے جب کبھی پاکستان کی سرحدوں کے قریب بھی آنے کی غلطی کی تو اس کا خمیازہ اسے معرکہ کارگل سے زیادہ شدت کے ساتھ اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ بھارت کو سی پیک کبھی بھی ہضم نہیں ہوگا اور وہ اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا سکتا ہے اس لئے بھی ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھا کر بھارت کے منفی پروپیگنڈوں اور ممکنہ سازشوں کو خاک میں ملایا جائے۔



.
تازہ ترین