ملامت کرتا ہے صاحب، ضمیر کہنیاں مارتا ہے۔ کالموں میں اپنی بشری کمزوریاں آشکار کر کے کئی مرتبہ سبکی ہوئی مگر فطرت نہ بدل سکی۔
کہنی مار کے پوچھتا ہے کہ آخر کیا ضرورت تھی اعلیٰ ایوانوں اور ارفع خواتین کے درمیان اپنے نروس ہو جانے کی بے کیف داستانیں دراز کرنے کی؟ کیا اُفتاد آ پڑی تھی جو جنگلوں میں بھیڑ بکریاں چرانے اور کھیتوں میں باجرے کی رکھوالی جیسے ادنی کاموں کی یادوں کو سرمایہ کہا؟ کیا سرمائے ایسے ہوتے ہیں، جن کی گونج نیب تک تو کجا، کبھی پڑوسی کے کان میں بھی نہ پڑی ہو ؟ ناحق اپنے پینڈو پن کو رونق کوچہ و بازار بنایا اور سرِ اخبار اپنی غربت بھی رسوا کی۔ کہنی مارتا ہے کہ لوگ تو اپنے آباء کی قوم بھی بدل لیتے ہیں، تم سے ایک خوئے بد نہ بدلی گئی...جو اب ہمیشہ کمزور ہوتا ہے ...جو قلم کار بام فلک سے ستارے نوچ لانے کے فن سے نا آشنا ہو، آسمان ادب پر ستارے ٹانکنے سے بھی قاصر ہو، اپنے کالموں میں قومی امراض کے صدری نسخے بیچنے کے ہنر سے بھی بے بہرہ ہو، دشنام طرازی کا سلیقہ بھی نہ جانتا ہواور محلاتی سازشوں سے بھی نابلد ہو،وہ ایسے نامعتبر موضوعات ہی پر طبع آزمائی کرے گا۔
سو،لاکھ کہنیاں مارے صاحب ! مگر ہم آج بھی اپنی ایک بشری کمزوری ہی کا ذکر کریں گے۔ بات ہے ذرا رسوائی کی مگر سچ ہے کہ ہم جس مرض کی علامات یا اشتہار پڑھ لیں، اسے اپنے اندر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بے شک ہم سیر ہوکر کھانا کھائیں، ہمیں نیند سے جگانے کے لیے ڈھول بجانا پڑے یا کلہاڑے سے من بھر لکڑیاں کاٹ کر بھی خود کو تروتازہ محسوس کریں مگر ڈاکٹروں کی زبانی ’’بھوک کا نہ لگنا، نیند کا نہ آنا اور مسلسل کمزوری و تھکاوٹ کا شکار رہنا اس بیماری کی علامات ہیں‘‘ سنتے ہی ہم کسی خود کار طریقے سے اس عارضے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حیا دامن گیر ہے ورنہ تفصیل سے عرض کرتے کہ کس طرح ــ’’حکمائے کرام‘‘ کے مردانہ کمزوری اور دیگر پوشیدہ امراض کے اشتہار دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ یہ بیماریاں تو کب سے ہمارے اندر بکل مارے بیٹھی ہیں۔ بھلا ہو پیمرا کا،جس کی اجازت سے کچھ چینلز پر بنگالی و غیر بنگالی جادوگروں کے اشتہارات دھڑلے سے چلتے ہیں... ’’گھر بیٹھے مسئلہ حل کروائیں، کام جائز ہو یا ناجائز، شادی کروانی ہو یا طلاق، سنگدل محبوب کو قدموں میں بٹھانا ہو یا دشمن کو نیست و نابود کرنا، ہر کام چوبیس گھنٹوں کے اندر ہوگا‘‘...یہ جادوگر بابے ہمیں کئی دفعہ گھر بیٹھے چونا لگا چکے ہیں۔ وائے حسرتا ! تعویذ گنڈوں کے باوجود کتنے ہی سنگدلوں نے اپنے دل لوہے کے کر لیے اور متوقع طلاقوں والے جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہمارا منہ چڑاتے رہے۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ میں ایسی کوئی کمزوری نہیں ہے، ورنہ آپ کو بھی پوشیدہ امراض اور دردِ دل کی دوا بیچنے والے ٹھگ ہاتھ دکھا چکے ہوتے۔
آج مغربی سائنسدانوں نے ہماری ایک اور بیماری بھی ڈھونڈ نکالی ہے۔ اس نفسیاتی مرض کے شکار پر مخصوص آوازیں گراں گزرتی ہیں۔ برطانیہ کی نیو کیسل یونیورسٹی کے سیانوں نے تحقیق کی ہے کہ مختلف آوازوں سے تکلیف محسوس کرنے کی حالت کو ’’ مسوفونیا‘‘ کہا جاتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں کھانے، چبانے اور قلم کو مسلسل کھولنے اور بند کرنے کی آوازوں سے مریض کو نفرت ہو جاتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ مسوفونیا کی درج بالا سے کہیں بڑھ کر علامات ہمارے اندر موجود ہیں۔ جب کوئی مسلسل کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ اور آنکھ نہیں بھرتے یا کوئی اپنے قلم کو کھول کر کسی کے بوٹ چمکاتا ہے یا بند کر کے کسی کی شلوار میں ازار بند ڈالتا ہے تو ہمیں مسوفونیا ہو جاتا ہے۔
مسوفونیا کا مریض ہونے کے ناتےہمیں بہت سی آوازوں سے چڑ ہے۔ جب کوئی پریشر ہارن یا لائوڈ اسپیکر کے شور سے دوسروں کا جینا حرام کرتا ہے، کسی پبلک مقام یا ٹرانسپورٹ میں موبائل پر ’’ہور سنا فیر‘‘ کا ورد کرتا ہے یا ڈرائیور مسافروں کو بالجبر کوئی بے سُرا گانا سنواتا ہے تو ہمیں سخت غصہ آتا ہے۔ جب کوئی ٹرمپ کا لب و لہجہ اختیار کرتا ہے، رانگ سائیڈ سے موٹر سائیکل زَن سے نکالتا ہے، شادی بیاہ کے موقع پر رات بھر پٹاخوں، ڈھول اور بلند میوزک سے دوسروں کو اذیت میں مبتلا رکھتا ہے، پیشہ ور بھکاری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹاتا ہے، تشدد سے گھریلو ملازمہ کسی بچی کی دلخراش چیخیں بلند ہوتی ہیں اور تشدد کرنے والا ڈھٹائی سے اپنا دفاع کرتا ہے تو مسوفونیا کی بیماری کے سبب ہمارا میٹر گھوم جاتا ہے۔
جب کوئی کسی کو کافر یا غدار قرار دیتا ہے، فرقہ وارانہ بحث کرتا ہے، دہشت گردی کے حق میں تاویلیں گھڑتا ہے، آمریت کے حق میں دلائل دیتا ہے، یابم دھماکوں اور گولیاں چلنے کی آوازیں آتی ہیں تو ہم پر ہسٹریائی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ خدا آپ کو اس سے بچائے، مسوفونیا ایسا عجیب عارضہ ہے کہ جب ٹرین کے کسی حادثے کے بعد کوئی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ کیا ٹرین میں چلا رہا تھا ؟ یا جب کوئی خوشخبری سناتا ہے کہ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، شہروں کو پیرس بنا دیں گے، تقدیر بدل دیں گے، انصاف دہلیز تک پہنچائیں گے یا جب کوئی تبدیلی یا نیا پاکستان بنانے کی جگالی کرتا ہے تو مریض پر جیسے برفانی تودہ گر جاتا ہے۔
تاہم کچھ آوازیں ایسی ہیں جن سے ہم پر کبھی بھی مسوفونیا کی کیفیت طاری نہیں ہوتی۔ جب تتلی کے پیچھے بھاگتا کوئی بچہ کھلکھلاتا ہے،عندلیب جمالِ گل پر قصیدہ خواں ہوتا ہے، کوئل نغمہ سرا ہوتی ہے، فاختہ گیت چھیڑتی ہے، چڑیاں چہچہاتی ہیں، خزاں رسیدہ درختوں کے پتے تالیاں بجاتے ہیں،کچی مٹی پر رم جھم بارش سے جلترنگ بجتی ہے، بہتا چشمہ ظلمت شب کو اپنا نغمہ سناتا ہے،کوئی جادوئی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے،سارنگی یا بانسری کے سینے سے دلگداز سُر نکلتے ہیں، کوئی سحر انگیز صداطبلے اور ہارمونیم کی لَے کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی ہے،کسی متحرک سجل پائوں میں خاص رِدھم سے پازیب کی جھنکار بجتی چلی جاتی ہے یا کیف آفریں شاعری دلوں کے تار چھیڑتی ہے، تو یقین فرمائیں کہ ہمیں مسوفونیا کا گماں بھی نہیں گزرتا۔ ہاں، اگر کبھی ہمیں زندگی کی حرارت سے بھرپور ایسی مسحور کن آوازوں سے بھی مسوفونیا ہوا تو ضمیر لاکھ کہنیاں مارے مگر ہم آپ کو بتائیں گے ضرور …تاہم شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے کیونکہ جیتے جی تو انسان کے بچے کو ان آوازوں سے مسوفونیا نہیں ہو سکتا۔
.