کراچی (اسٹاف رپورٹر) آزاد جموں و کشمیر کے صدر مسعود خان نے کہا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے بعد آزاد کشمیر کو بھی سی پیک سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ یہ قوم کے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے ۔ کشمیر کمیٹی کے اختیارات محدود ہیں، اس کا کام صرف تجاویز دینا ہے لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان کی پوری پارلیمنٹ مسئلہ کشمیر پر متحد و منظم ہے ۔کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہماری اولین ترجیح ہے ۔ گلگت بلتستان کے لیے ایسا حل تلاش کیا جا رہا ہے ، جس سے کشمیریوں کی جدوجہد اور پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے موقف عالمی سطح پر متاثر نہ ہو،ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی آئینی حق ملے ۔ سی پیک کے بیشتر منصوبے 2022 تک مکمل ہوں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو گورنر ہاؤس کراچی میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ بطور صدر آزاد کشمیر میری اپنی تین ترجیحات ہیں ۔ پہلی ترجیح ملکی و عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا اور بہتر سے بہتر انداز میں کشمیریوں کے موقف کو پیش کرنا ہے ۔ دوسری ترجیح آزاد کشمیر کے اندر گڈ گورننس کا قیام عمل میں لانا ہے اور تیسری ترجیح علاقے کی تعمیر و ترقی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ پوری قوم کے لیے ایک بڑی خوش خبری ہے کہ آزاد کشمیر کو بھی سی پیک سے جوڑ دیا گیا ہے ۔سی پیک کے تحت مانسہرہ سے مظفر آباد اور دیگر علاقوں تک ہائی وے بنے گی ۔ توانائی کے منصوبے شروع کیے جائیں گے اور بہمبر میں صنعتی زون قائم کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک بلتستان سے ہو کر گزرے گا لیکن آزاد کشمیر ایک طرف ہونے کی وجہ سے اس کے منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنانا کافی مشکل کام تھا ۔ ہماری دوسری ترجیح دیگر منصوبوں کو بھی سی پیک کا حصہ بنانا ہے ۔ ایک سوال پر کہاکہ گلگت بلتستان کے عوام کے امنگوں کے مطابق اگر کوئی حل نکالا جاتا ہے تو اس پر آزاد کشمیر سے خون کی ندیاں بہانے کی اگر کسی نے بات کی ہے تو یہ غلط ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی آئینی حق ملے ۔ تاہم اس کے لیے ایسا حل تلاش کیا جا رہا ہے ۔