اسلام آباد (رپورٹ…عمرچیمہ) قصور میں بچوں سے بدسلوکی کے اسکینڈل کی تحقیقات کے نتیجے میں فسانے سے حقیقت نکل کر سامنے آنے سے اس کی پشت پر چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے اور یہ کہ کس طرح سے میڈیا نے اس سانحے کو طول دینے کی کوشش کی۔ ایک جے آئی ٹی نے گائوں حسین خان والا میں بچوں سے بدسلوکی کی تصدیق کی اور اس حوالے سے 23 کیسز کو حتمی شکل دی گئی۔ اس بات کی تردید کی گئی کہ 284 سے زائد بچے انسانیت سوز سلوک کا نشانہ بنے۔ وڈیو کلپس بھی مبالغہ آمیز بتائی جاتی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ میڈیا سے وابستہ افراد بڑے اعتماد سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس 284 سے 400 تک بچوں سے زیادتی کے کلپس موجود ہیں لیکن مانگنے پر وہ کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے۔ میڈیا کا کردار زیادہ ذمہ دارانہ نہیں رہا اور جے آئی ٹی مزید اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا نے جو ہیجان پیدا کیا اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی بے حرمتی کے خلاف مہم چلانے والوں میں ایک مبین غزنوی خود ہم جنس پرست سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2012 میں ایک لڑکی کو بھی اغوا کیا۔ جسے اسلام آباد میں جنرل حمید گل مرحوم کےبیٹے عبداللہ گل نے چند ماہ کیلئے پناہ بھی فراہم کی۔ رپورٹ کے مطابق مبین غزنوی جو حمید گل پر تین کتابوں کا مصنف ہے، اس نے رپورٹ کے مطابق علاقے میں خود کو آئی ایس آئی کا افسر ظاہر کیا، پہلی بار یہ ایشو اکتوبر 2014 میں پولیس کو رپورٹ ہوا لیکن پولیس کو رشوت دیکر کیس بند کرادیا گیا اور کچھ پیسے دیکر شکایت کنندہ سے صلح نامہ کرادیا گیا، بعدازاں جب اپریل/مئی 2015 میں بڑی تعداد میں وڈیوز سامنے آئیں تو یکم جولائی 2015تک کوئی بھی مقدمہ دائر کرنے کیلئے سامنے نہیں آیا۔ گائوں میں ہ جنس پرستی کے حوالے سے سرگرمیاں ایک عرصہ سے جاری تھیں لیکن انہیں نمایاں کرنے کیلئے مہم نے ایک نیلام سرکاری پلاٹ کی ماسٹر ظفر کے نام الاٹمنٹ کے بعد زور پکڑا جس کے ملزم خاندان سے قریبی تعلقات تھے۔ ظفر کے مخالفین مبین اور احمد دین نے جبکہ لیز کی منسوخی کیلئے درخواست دی۔ ظفر نے حکم امتناع حاصل کرلیا۔ دریں اثناء ایک حاضر سروس میجر زاہد اقبال کو یہ اراضی الاٹ کردی گئی۔ ظفر نے ایک اور حکم امتناع کے ذریعہ اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس تناظر میں بدسلوکی کے اس اسکینڈل کی مہم شروع کی گئی۔ جب مبین اپنے کزن مرکزی ملزمحسیم عامر چند وڈیو کلپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جے آئی ٹی کی دو ماہ طویل تفتیش 450 سے زائد افراد کے انٹرویوز پر مبنی ہے جس میں متاثرین،گواہ، شکایت کنندگان، علاقے کے لوگ اور پولیس اہلکار شامل ہیں، جس میں بتایا گیا ہے کہ گائوں کے زیادہ تر باشندوں کو مئی 2015 میں اس اسکینڈل کا معلوم ہوا۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ گائوں والوں کو خاصے وقت سے ان باتوں کا علم تھا۔ زیادہ تر وڈیوز تین سے چار سال پرانی ہیں جو ذرائع سے خریدی گئیں۔ ان کی تعداد 47 ہے لہٰذا 284 سے 400 کلپس ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ مبین اور سلطان جو متاثرین کی نمائندگی کرتے ہیں، خود ان کے کردار مشکوک ہیں۔ مبین ماضی میں جماعت الدعوۃ سے وابستہ رہا اور اب عبداللہ گل کی پارٹی انجمن نوجوانان ملت سے منسلک ہے۔ 2012 میں پڑوس کے ایک گائوں سے لڑکی کو اغوا کیا گیا جسے عبداللہ گل نے چند ماہ تک پناہ دی۔ معاملہ صلح نامے پر ختم ہوا اور لڑکی واپس کردی گئی۔ اس کے خلاف جعلسازی کے کیس بھی درج ہوئے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے تحقیقات میں اس کے ہم جنسی اور مخرب اخلاق سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بات بھی سامنے آئی۔ اس کیس کا ایک اور نمایاں مہم چلانے والا سلطان عام طور پر ’’سلطانہ ٹھگ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جو علاقے کے کسانوں کا بھاری مقروض ہے۔ مقامی سیاسی نمائندوں کے کردار کی مذمت کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ صورتحال کو درست کرنے اور نمٹنے میں ناکام رہے بلکہ وارداتوں سے بھی ناواقف رہے۔ رکن قومی اسمبلی ملک رشید احمد نے مداخلت کی لیکن بعدازاں صرف احتجاج کرنے والوںکی وزیراعلیٰ سے ملاقات کرادی۔ ایشو سے نمٹنے میں پولیس کی ناکامی پر رپورٹ میں جونیئر پولیس حکام کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جے آئی ٹی میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پولیس کو انسداد جرائم اور تفتیش کے حوالے سے ان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی اجازت ہونی چاہئے۔ بجائے اس کے کہ اسے ان کاموں میں مشغول رکھا جائے جنہیں کرنے کیلئے پورے کے پورے محکمے موجود ہیں۔