کراچی ( تجزیہ / مظہر عباس) رینجرز کے اختیارات میں مشروط توسیع کے معاملے پر سندھ اور مرکز کے درمیان جاری کشیدگی خدشہ ہے کہ آئندہ ہفتوں میں بڑھے گی ۔ جب مزید توسیع کا معاملہ درپیش ہوگا ، آیا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کراچی آئیں گے یا 5 فروری سے قبل مزید توسیع کیلئے سندھ کے ردعمل کا انتظار کریں گے ؟ تعطل بظاہر رینجرز کیلئے مشروط یا غیر مشروط اختیارات کے معاملے پر ہے ۔ وفاقی حکومت سندھ کی شرائط قبول کرنے پر آمادہ نہیں جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کا دھمکی آمیز لہجہ بتاتا ہے کہ مرکز نے اگر ان کا موقف تسلیم نہ کیا تو یہ ایشو مدت مکمل ہونے پر دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گا ۔ اس طرح چوہدری نثار کے دورہ کراچی کا امکان ہے بشرطیکہ سندھ رینجرز کیلئے غیر مشروط اختیارات مان کر ’’ بلیم گیم ‘‘ ترک کر دے۔ دوسرے اگر مسائل حل نہ ہوئے اور سندھ نے رینجرز اختیارات میں توسیع کا فیصلہ نہ کیا تو وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت براہ راست اپنا اختیار استعمال کرے گی یا معاملہ پر سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔ ایک دلچسپ پیش رفت کے تحت وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے آئندہ منگل کو اپیکس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے جس میں کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل نوید مختار، ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر، سینئر پولیس افسران اور صوبائی انٹلی جنس سربراہان کی شرکت کا امکان ہے ۔ اسلام آباد میں چو ہدری نثار علی خان کی موجودگی میں وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ سندھ کی ملاقات کے بعد یہ اپیکس کمیٹی کا پہلا اعلیٰ سطح اجلاس ہوگا ۔ چوہدری نثار کیلئےیہ دورہ کراچی اور اپنی شرکت یقینی بنانے کا بہترین موقع ہوگا یا پھر وہ کشیدگی دور کرنے کیلئے علیحدہ سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ اس وقت رینجرز وفاقی حکو مت کی جانب سے دیئے گئے براہ راست اختیارات کے تحت کارروائی کر رہی ہے ، اس نے سندھ کی جانب سے رینجرز اختیارات میں مشروط توسیع مسترد کر دی تھی۔ اس صورتحال نے پہلے ہی وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کو پریشان کن صورتحال سے دو چار کر دیا ہے لیکن رینجرز صوبائی حکومت کی جانب سے اس کے دائرہ کار کو محدود کرنے کے نوٹیفکیشن پر خوش نہیں ہے ، تاہم اس تعطل کے بعد رینجرز اور حتیٰ کہ ایف آئی اے کی سطح پر محتاط رویہ دیکھنے میں آیا۔ گو کہ نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری کے بہنوئی اور سابق وزیر منور علی تالپور کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے لیکن ابھی تک رینجرز، ایف آئی اے یا نیب کی جانب سے کوئی نمایاں گرفتاری ابھی تک عمل میں نہیں آئی ہے ۔ ڈائریکٹر جنرل رینجرز میجر جنرل بلال اکبر نے اپنی طرف سے واضح کر دیا ہے کہ وہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں کام کر رہے ہیں لیکن رینجرز کے اختیارات کے معاملے میں حد سے زیادہ سیاست نے اسے دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے کیونکہ وہ ’’ بلیم گیم ‘‘ میں ملوث نہیں ہونا چاہتے۔ اس کے علاوہ اس کشیدگی نے ڈاکٹر عاصم حسین کیس میں جوکچھ ہوا اس کے بعد مقدمات چلانے کے عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ ڈاکٹر عاصم اب نیب کی تحویل میں ہیں۔ اب بھی سیکڑوں جے آئی ٹی رپورٹس اور مقدمات سماعت کیلئے آئے ہیں لیکن رینجرز نے سندھ کی پراسیکیوشن برانچ پر خدشات اور شکوک کا اظہار کیا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پہلے ہی ایف آئی اے اور نیب کی کارروائیوں پر سندھ کی تشویش کو مسترد کر دیا ہے اورفیصلہ کیا ہے کہ ایف آئی اے وفاقی ایجنسی کے طور پر اور نیب اپنی آزادانہ حیثیت میں کارروائیاں جاری رکھیں گے ، اسی لئے کسی سمجھوتے کیلئے قدر مشترک نہ ہونے کے باعث وزیر داخلہ نے سندھ حکومت کی درخواست کے باوجود کراچی آنے سے گریز کیا ہے ۔ اب حکومت سندھ نے ان مبینہ طور پر لاپتہ ہزاروں فائلوں کا معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر چھاپے کے دوران ایف آئی اے اٹھا کر لے گئی تھی۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اب یہ فائلیں نیب کی تحویل میں ہیں جو پلاٹوں کی ’’ چائنا کٹنگ‘‘ کے حوالے سے تحقیقات کر رہا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے ان تمام اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے انہیں قانونی قرار دیا اور کہا کہ ایف آئی اے کو ایسی کارروائیوں کا اختیار ہے ۔ خصوصاً وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ وزیر اعظم کی ہدایت کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ کے کراچی نہ آنے پر مایوس ہیں۔ مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو کے مطابق وہ اب بھی چوہدری نثار کے دورے کے منتظر ہیں۔ حکومت سندھ گزشتہ چند دنوں سے وزیر داخلہ کے کراچی نہ آنے پر اعلانیہ تشویش کا اظہار کر چکی ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وزیر اعظم نے چوہدری نثار کو کراچی جانے کا واقعی کہا تھا یا وزیر نے خود ہلکے موڈ میں وزیر اعلیٰ کو بتایا تھا کہ شاید وہ جلد کراچی کا دورہ کریں، اگر وزیر اعظم کی واضح ہدایات ہوتیں تو وزیر داخلہ کیلئے انکار کرنا مشکل تھا۔ سندھ اسمبلی نے گزشتہ ماہ رینجرز کے قیام میں ایک سال کی توسیع کی لیکن انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اختیارات 120 دنوں کے بجائے 60 دنوں کیلئے دیئے گئے اور ساتھ میں تین شرائط بھی لگا دیں جس نے کشیدگی پیدا کی اور وزیر داخلہ کو مایوس کیا۔ وفاقی حکومت نے سندھ کی شرائط مسترد کرکے رینجرز کو آپریشن جاری رکھنے کی اجازت دی لیکن جب 5 فروری کو اختیارات کے حوالے سے مدت مکمل ہوگی تو سندھ کا اقدام اور مرکز کا جواب کیا ہوگا۔ یہ بڑے کلیدی سوالات ہیں ۔ چوہدری نثار کے کراچی نہ آنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی اسلام آباد میں پریس بریفنگ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جو دو ہفتے قبل وزیراعظم سے ملاقات کے بعد ہوئی تھی۔ درحقیقت انہوں نے دھمکی دی تھی کہ مسئلہ حل نہ ہوا تو یہ دوبارہ ابھرے گا ۔ اس بات نے چوہدری نثار کو مایوس کیا اور انہوں نے مسئلہ کے حل کا کوئی فارمولا طے ہونے تک کراچی نہ جانے کا فیصلہ کیا ۔ دوسرے پیپلز پارٹی رہنمائوں کے سخت بیانات کہ وزیر داخلہ غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، اس نے بھی چوہدری نثار کے کراچی آنے سے قدم روکے۔ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ رینجرز سرکاری دفاتر پر چھاپے مار کر ریکارڈ سیل نہ کرے اور چیف سیکرٹری کو آگاہ کئے بغیر کسی کو حفاظتی حراست میں نہ لیا جائے۔ آئندہ دو تین ہفتوں میں کیا ہوگا ، بظاہر مرکز اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں قیام کے دوران سندھ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی پالیسی کو ہدف تنقید بنایا اور نیشنل ایکشن پلان کو پی ایم ایل ایکشن پلان قرار دیا ، جیسا کہ آج کیفیت ہے ، لگتا ہے صورتحال ’’ فیڈرل رول‘‘ کی جانب جارہی ہے ، اس صورت میں جب صوبائی حکومت رینجرز اختیارات میں توسیع نہیں کرتی یا پھر سے شرائط عائد کرتی ہے ۔ رینجرز کے اختیارات کو 60 دن سے بھی محدود کرکے 30 دن کیا جا سکتا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی اس کیس میں مظلوم بن کر ابھرنا چاہتی ہے لیکن وزیراعظم سندھ میں گورنر راج یا آرٹیکل ۔245 کے نفاذ کے امکانات کو پہلے ہی رد کر چکے ہیں۔ ایسے میں کیا بلیم گیم جاری رہے گا یا کوئی سیاسی بحران ابھر کر سامنے آنے والا ہے جس میں ایک طرف پیپلز پار ٹی کو مرکز کے ساتھ مسائل ہیں تو دوسری جانب بلدیاتی اختیا را ت پر ایم کیو ایم سے تنازع ہے ۔ اس طرح لگتا ہے کہ فر و ر ی سیاسی طور پر بڑا گرم مہینہ ہوگا ورنہ دیگر صورت تو یہ موسم کا خوشگوار ترین مہینہ ہوتا ہے ۔