گوادر(محمد صالح ظافر /خصوصی تجزیہ نگار) وزیر اعظم نوازشریف نے ایک بار پھر پاکستان کے شاندار معاشی مستقبل کے لئے استعارے کی حیثیت اختیارکرنیوالے گوادر کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے۔سحر خیز وزیراعظم نے گوادر کی شام ہی نہیں صبح سے بھی خود کو تازہ دَم رکھا۔ اپنے طوفانی دورے میں وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان کی کابینہ اور حکومتی اتحاد میں شامل ارکان اسمبلی، مسلم لیگ ن کے عہدیداروں، گوادر حکام اور عمائدین سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان سے بلوچستان اور گوادر کے مسائل کے بارے میں آگاہی حاصل کی پھر انہیں وفاقی حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم نوازشریف گوادر کےساحلی علاقے کے معائنے کے لئے بھی گئے، یہاں کھڑے ہو کر عرب ریاست اومان کے ساتھ پاکستان کے قدرتی قرب کا احساس ہوتا ہےاور ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کی کم مائیگی کا تعین کیا جا سکتا ہے، پون گھنٹے کے دورے میں پاک بحریہ کے نائب سربراہ ایڈمرل وسیم اکرم نے جو معلومات سمندر اور اس کے ساحلوں کے حوالے سے فراہم کیں وہ کئی ضخیم کتابوں کے مطالعے سے بھی شاید اخذ نہ کی جا سکتی ہوں۔ سیماب پائی پر مائل وزیراعظم نے اس دورے میں اپنے ہمسفر وزرا اور حکام کو بھی اپنے ساتھ مسلسل مصروف عمل رکھا اور بمشکل ہی کسی نے نیند پوری کی ہو۔ ہرچند گوادر کے ساحل سے بوس و کنار کرتا نیلگوں پانی اور ہر دم نسیم سحری کی مانند جانفزا ہوا کے جھونکوں کے درمیان زندگی میں خاص طرح کا کیف پیدا کرتا ہے، وزیر اعظم نے گوادر کے وسیع علاقے کا فضائی معائنہ کیا اس دوران بعض جگہوں پر نیچی پرواز کر کے زمین پر جاری تعمیر و ترقّی کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ گوادر میں ان کی آخری مصروفیت جلسہ عام سے خطاب تھا جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس جلسے کا حیرت انگیز پہلو یہ بھی تھا کہ اس میں خواتین نے بھی قابل لحاظ تعداد میں شرکت کی جن میں اُدھیڑ عمرخواتین کے علاوہ نوجوان لڑکیوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ وزیراعظم نے جب لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں زیادہ ذہین قرار دیا اور ان کی ہمت بندھائی تو وزیراعظم نوازشریف زندہ باد کے نعروں کے درمیان مریم نواز زندہ باد کے نعرے بھی گونجنے لگے۔حکومتی ناقدین کو یقیناً پریشانی ہوگی کہ مریم نواز شریف کا جادو ساحلی شہروں تک اَثر کر گیا ہے اسی دوران وزیراعظم نوازشریف نے اپنے ہیلتھ پروگرام کی توسیع گوادر تک کرنے کا اعلان کر دیا جو مریم نوازشریف کے رشحاتِ فکر کا شاہکار ہے۔ وزیراعظم نوازشریف ایک روز قبل پسنی کے فضائی مستقر پر اُترے تھے جہاں سے وہ بذریعہ سڑک گوادر پہنچے، اس دوران واجبی حفاظتی بندوبست تھا ڈیڑھ سوکلومیٹر کی مسافت جسے وزیراعظم کے قافلے نےسوا گھنٹے میں طے کرلیا دراصل بلوچستان اور اقتصادی راہداری کے مخالفین کو پیغام تھا کہ اس پورے علاقے کو نقل و حرکت کے لئے محفوظ و مامون بنا دیا گیا ہے اور ان کی تدبیریں ناکارہ ہوگئی ہیں۔ وزیراعظم نے سڑک پر سفر کے بارے میں اعلان ہفتہ عشرہ پہلے کر دیا تھا یہی وجہ تھی کہ تخریب کاروںکی باقیات نے گوادر سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر عبدالحکیم شاہ چراغ شہید کے چوک سے متصل ایک پلی کو بارود سے گزند پہنچانے کی گزشتہ ہفتے کوشش کی جو ناکام رہی، وزیراعظم مسکرا کر اس پلی پر گزر گئے۔ وہ گوادر شہر میں داخل ہوئے تو پورے شہر میں جا بجا ان کی دل آویز رنگین تصاویر سڑک کے دونوں جانب آویزاں تھیں۔ پاکستان کی حمایت میں زبردست نعرے درج تھے اور شہر میں پاکستانی پرچموں کی بہار تھی یہ وہی گوادر تھا جہاں اب سے محض ایک عشرہ قبل پاکستانی جھنڈے کو لہرانے یا رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔