• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم پاکستان اس مرتبہ زیادہ جوش و خروش سے منایا گیا۔ بائیس اور تئیس مارچ کی درمیانی شب جونہی اپنے نصف کو پہنچی تو پورے ملک میں آتش بازی کے مظاہرے کئے گئے۔ خاص طور پر مزار قائدؒ اور مینارپاکستان پر ہونے والی آتش بازی یادگار تھی۔ 23مارچ کی صبح دعائوں کے ساتھ توپوں کی سلامیاں دی گئیں۔ پریڈ ہوئی، پریڈ بھی یادگار تھی اس پریڈ میں کئی ممالک شامل تھے۔ فوج کے چاق و چوبند دستوں نے سلامی دی، تینوں افواج نے شاندار کارکردگی دکھائی۔ اعلیٰ فضائی کرتب بھی دکھائے گئے حتیٰ کہ ائیر چیف مارشل سہیل امان نے بھی فلائی پاسٹ میں حصہ لیا۔ صدر اور وزیراعظم کے علاوہ تمام سروسز چیفس بھی موجود تھے یہ پریڈ شکر پڑیاں اسلام آباد میں ہوئی۔ ملی نغموں کی گونج میں وطن سے محبت جاگتی رہی۔
اگرچہ اسلام آباد میں ہر طرف پاناما کے مقدمے کے فیصلے پر باتیں ہورہی ہیں۔ محو انتظار قوم کو امید ہے کہ 23مارچ کے فوراً بعد فیصلہ آجانا چاہئے۔ اگر آج جمعے کے روز فیصلہ نہ آیا تو اگلے دو چار روز میں ضرور آجائے گا کیونکہ فیصلہ مارچ ہی میں آئے گا مگر اس فیصلے کے علاوہ بھی اسلام آباد کی جھولی میں بہت کچھ ہے بلکہ اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں جگہ جگہ داستانیں بکھری پڑی ہیں، لطف کی بات ہے کہ ہر داستان کےاندر کئی داستانیں ہیں کہنے کو یہ ’’سیف سٹی ‘‘ یعنی ’’محفوظ شہر‘‘ ہے۔ یہ انوکھا شہر ہے جہاں کا میئر اس کے ترقیاتی ادارے کا سربراہ بھی ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے کراچی کا میئر کے ڈی اے کا ڈی جی بن جائے یا پھر لاہور کا میئر ایل ڈی اے کا چیئرمین بن جائے چونکہ اسلام آباد میں صوبائی اسمبلی نہیں ہے لہٰذا یہاں کا میئر ایک طرح سے وزیراعلیٰ ہی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا میاں شہباز شریف ایل ڈی اے کا سربراہ بننا پسند کریں گے یا مراد علی شاہ چاہیں گے کہ انہیں کے ڈی اے کا سربراہ بھی بنادیا جائے یا پھر پرویز خٹک چاہیں گے کہ انہیں پی ڈی اے کا چیئرمین بنادیا جائے۔ ان اداروں کی سربراہی عام طور پر سرکاری افسران کے حصے میں آتی ہے مگر اس سلسلے میں اسلام آباد کی مثال انوکھی ہے۔ اس کے محفوظ ترین شہر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دس مارچ کو وزارت داخلہ کی طرف سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد میں خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 160 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ چوری، ڈکیتی اور قتل کے علاوہ ظلم کی داستانیں الگ ہیں۔ اگر ایک ’’محفوظ شہر‘‘ کا یہ حال ہے تو غیر محفوظ شہروں کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ اسلام آباد کے شہریوں کے ساتھ ایک اور ظلم ہورہا ہے تمام وفاقی محکموں میں چاروں صوبوں کے علاوہ کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کا کوٹہ ہے مگر افسوس کہ ان ملازمتوں میں اسلام آباد کے شہریوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ویسے اسلام آباد کا اسٹیٹس ایک صوبے کی طرح ہے یہاں دوسرے صوبوں کی طرح آئی جی پولیس ہے، یہاں ہائی کورٹ ہے لیکن یہاں قائم اداروں میں اسلام آباد کے نوجوانوں کیلئے نوکریوں کے دروازے بند ہیں۔ اس لحاظ سے بھی یہ علاقہ دنیا کا انوکھا ترین علاقہ ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے تشدد کے واقعات بھی بڑے نمایاں ہیں۔ پہلے ایک جج کے گھر میں ایک ملازمہ کی ’’مرمت‘‘ ہوئی تھی۔ تازہ کیس کے پس پردہ حکومتی رکن اسمبلی مائزہ حمید گجر ہیں۔ سپریم کورٹ کے باہر روزانہ کی بنیاد پر نظر آنے والی رکن اسمبلی کے ’’انصاف‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ایک ملازمہ کو برے طریقے سے مارا پیٹا گیا۔ تشدد کا شکار ہونے والی صائمہ کے ورثا نے الزام عائد کیا ہے کہ صائمہ اور اس کی بھابھی کو پانچ سال پہلے یہی خاتون رکن اسمبلی اسلام آباد لے کر گئیں۔ انہوں نے صائمہ کی بھابھی ثمینہ کو اپنے پاس جبکہ صائمہ کو اپنی خالہ کے پاس ملازم رکھوایا، تشدد کی خبر باہر آنے پر رکن محترمہ نے صائمہ کے والد کو اغوا کروا لیا، صائمہ کے بھائی نے والد کی گمشدگی کے حوالے سے تھانے میں درخواست بھی دے رکھی ہے۔ صائمہ کی بھابھی ثمینہ کا کہنا ہے کہ ’’.....مائزہ حمید اور ان کی والدہ کے تشدد کے باعث میں نوکری چھوڑ کر واپس آگئی تھی، تشدد کے بعد میں تھانے گئی مگر مجھے وہاں سے لا کر ان کے گھر میں تشدد کیا گیا، میری چار سال کی تنخواہیں بھی اس اہم حکومتی رکن قومی اسمبلی نے نہیں دیں.....‘‘ مائزہ حمید گجر قومی اسمبلی کی رکن بننے سے پہلے 2008ء میں پنجاب سے ایم پی اے بنی تھیں۔ رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی اس جوشیلی رکن اسمبلی کا نام کسی عزیز یا عزیزہ نے 2008ء کی صوبائی فہرست میں اس لئے ڈال دیا تھا کہ اس وقت ن لیگ کے پاس خواتین بہت کم تھیں۔ انسانوں پر تشدد اخلاقیات کے سبق کی نفی کرتا ہے مگر حکومتی پارٹی میں ایسی خواتین بھی ہیں جو اپنے مرد نوکروں پر بھی تشدد کرواتی ہیں نمونے کے طور پر رکن پارلیمنٹ ایک ڈاکٹر صاحبہ کا ویڈیو کلپ دیکھا جاسکتا ہے۔
میں پارلیمنٹ ہائوس کی ان داستانوں کا تذکرہ تو نہیں کروں گا جن کا ذکر جمشید دستی نے کیا تھا۔ وہاں اور کیا کچھ ہورہا ہے اس کا اندازہ آپ بدھ کے روز پیش آنے والے ایک واقعہ سے کرسکتے ہیں۔ ایک افسر باہر سے یعنی سوئی گیس سے قومی اسمبلی میں امپورٹ کیا گیا، یہ ’’امپورٹڈ‘‘ افسر اسپیکر قومی اسمبلی کا خاص چہیتا ہے۔ منہ زور اور سینہ زور قسم کا یہ افسر تمام افسران کو آگے لگائے پھرتا ہے، حتیٰ کہ عمارت میں مرمتی کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو تنگ کرنا بھی اس کا خاص شیوہ ہے۔ بدھ کے روز اس کرشماتی افسر نے پتہ نہیں اسپیکر صاحب کو کونسا پہاڑا پڑھایا کہ انہوں نے تین افسروں کی گرفتاری کیلئے ہتھکڑیوں سمیت پولیس کو طلب کیا، مرمتی کام کے ذمہ دار یہ تینوں افسر چونکہ سی ڈی اے کے تھے لہٰذا میئر اسلا م آباد کو درمیان میں آنا پڑا۔ صلح تو ہوگئی مگر ٹھیکیدار اپنے پیسوں کے لئے پریشان ہیں کہ آٹھ کروڑ کا کام تھا اور تیرہ کروڑ لگوا دیا ہے، آخر یہ پیسے کون دے گا؟
اسلام آباد کی اور بھی دلچسپ داستانیں ہیں مگر یہ کہانی پھر سہی۔ فی الحال قصۂ چہار مستور شروع کرتا ہوں۔ ان میں سے دو خواتین سرکاری سطح پر اور دو غیر سرکاری سطح پر بہت کام کررہی ہیں۔ میرےلئے یہ خواتین اس لئے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان چاروں نے مسئلہ کشمیر کیلئے بہت کام کیا ہے۔ چاروں کے نام زیادہ دیر نہیں چھپاتا کہ محض نام کے چکر میں آپ کو آخر تک نہ پڑھنا پڑے۔ اب جو پڑھے گا وہ کام کی نظر سے پڑے گا۔ ان مستورات کے نام ہیں۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی، تسنیم اسلم، غزالہ حبیب اور مشال ملک جو لوگ اقوام متحدہ کی کارروائیوں سے آگاہ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھارت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ خاص طور پر مسئلہ کشمیر پر ہر طرح سے بات کرتی ہیں۔ ملیحہ لودھی ایک صحافی، دانشور اور کامیاب سفارت کار کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ دوسری مستور کا نام تسنیم اسلم ہے۔ وزارت خارجہ کی ایڈیشنل سیکرٹری ماضی میں دفتر خارجہ کی ترجمان رہی ہیں ان کی شخصیت بڑی جاذب نظر ہے، انہیں بات کہنے کا سلیقہ آتا ہے، دلیل سے گفتگو کرتی ہیں، ویسے تو وہ ایک عرصے سے مسئلہ کشمیر پر بڑی مدلل گفتگو کررہی ہیں مگر چند ہفتے پہلے سفیروں کی کانفرنس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کی وکالت میں اپنی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً تسنیم اسلم کا دل بھی آزادی کشمیر پکار رہا ہوتا ہے کیونکہ ان کا تعلق راولا کوٹ سے ہے۔ اس صاحبہ مرشد سفارت کار تسنیم اسلم نے آج تک کشمیر اور پاکستان کا مقدمہ ہمیشہ دل سے لڑا ہے۔ تسنیم اسلم دانشور سفارت کار ہیں کئی علوم سے واقف ہیں اور وہ ان علوم سے بھرپور مستفید ہوتی ہیں۔ تیسری خاتون غزالہ حبیب کام تو امریکہ میں کرتی ہیں مگر رہنے والی راولا کوٹ کی ہیں، غزالہ حبیب وائس آف کشمیر کی چیئرپرسن ہیں، وہ بھی کشمیر کے ایشو پر زبردست کارکردگی دکھا رہی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ کشمیریوں کے مسائل سے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ غزالہ حبیب نے مقبوضہ کشمیر کے دکھوں کو ایک کتاب ’’سلگتے چنار‘‘ میں بھی پرویا ہے، اپنے کالموں کے ذریعے یہ خاتون اکثر دکھ کی داستانیں بیان کرتی ہیں۔ چوتھی خاتون کا نام مشعال ملک ہے۔ مشعال ملک حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ ہیں، تحریک آزادی کشمیر کا مقدمہ ان کی زندگی کا حصہ ہے غرضیکہ یہ چاروں مستورات بہت ہی عظیم کام کررہی ہیں اسی لئے تو میں قصہ چہار درویش کے مقابل قصہ چہار مستور لے آیا ہوں مگر سرور ارمانؔ کا یہ شعر سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ؎
جس داستاں کا ہم تھے کبھی مرکزی خیال
اس میں ہمارا ثانوی کردار بھی نہیں

.
تازہ ترین