• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بتانا صرف یہ ہے کہ اگر نیت صاف اور بھروسہ اللہ پر ہوتوپل صراط چاہے طاقت کا ہو یا دولت کا ، بندہ پار کر ہی جاتا ہے !
پہلے یہ ملاحظہ کریں !
26مارچ 2015ءکی صبح جیسے ہی آرمی میڈیکل کالج کے 38ویں Raising Dayکی تقریب ختم ہوئی تو بیسیوں طلباء وطالبات نے جنرل راحیل شریف کو گھیر لیا اور پھر جب گروپ فوٹوز، آٹو گراف اورسیلفیوں کا زور ٹوٹا تو ایک طرف سے آواز آئی ’’سر آپ اتنے اسمارٹ کیسے ہیں ‘‘ اس سے پہلے کہ جنرل راحیل بولتے دوسری طرف سے کوئی بولا ’’سر اسلئے اسمارٹ ہیں کیونکہ باقی سب Over Smartہیں، آرمی چیف سمیت سب ہنس پڑے ۔ سر آپ کو یقین تھا کہ ضربِ عضب کامیاب ہو جائے گی ،مستقبل کے ایک ڈاکٹر نے یہ سوال کیا تو زیرِ لب مسکراتے راحیل شریف نے کہا ’’سو فیصد یقین تھا ‘‘ ، لیکن سر وہ کونسا لمحہ تھا کہ جب آپ نے حتمی فیصلہ کیا کہ اب دہشت گردوں کیخلاف جنگ ہونی چاہئے،میڈیکل کی ایک طالبہ کے اس سوال پر آرمی چیف بولے ’’ میں تو سیدھا سادہ فوجی ہوں مجھے تو شروع سے ہی یہ معلوم تھا کہ لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانیں گے لہذا میری پلاننگ تو پہلے دن سے جاری تھی لیکن ہاں ایک وہ لمحہ ضرور آیا کہ جب میں نے حتمی فیصلہ کیا تھا ، مجھے آرمی چیف بنے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا ،میں دفترسے واپسی پر گھر آکر جب بھی اپنی والدہ کے کمرے میں جاتا تو ماں جی اکثر ٹی وی دیکھ رہی ہوتیں اور زیادہ تر وہ کسی دھماکے یا دہشت گردوں کی کوئی کارروائی دیکھ رہی ہوتیں ، پھر جیسے ہی وہ مجھے دیکھتیں تو دکھی لہجے میں ٹی وی کی طرف اشارہ کرکے کہتیں ’’ پُتر ایہہ کی ہو رہیااے‘‘ (بیٹا یہ کیا ہو رہا ہے )، میں انہیں تسلی دیتا کہ ماں جی اللہ فضل کرے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گاپھر مجھے وہ دن بھی اچھی طرح یا دہے کہ جب ایک شام میں دفتر سے واپسی پر ماں جی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ ٹی وی پرکسی خودکش دھماکے کی کوریج دیکھ رہی تھیں ،میں نے سلام کیا تو سلام کا جواب دینے کی بجائے وہ اک عجیب سے درد اور کرب بھری آواز میں بولیں ’’ پُتر ایہہ کی ہو رہیا اے تیپُتر توں کی کر رہیا ایں ‘‘ (بیٹا یہ کیا ہو رہا ہے اور بیٹا تم کیا کر رہے ہو ) اس دن ماں جی نے جس انداز میں یہ کہا کہ ’’پُتر توں کی کر رہیا ایں ‘‘ تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے قوم کی ہر ماں مجھ سے یہی کہہ ر ہی ہو اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب میں نے سوچا کہ بس بہت ہوچکا ،اب کچھ کرنا چاہئے ۔ یاد رہے کہ 26مارچ کی اِس صبح بھیگی آنکھوں سے جنرل راحیل شریف جس ماں جی کا ذکر کررہے تھے وہ ماں 40روزقبل وفات پاچکی تھیں اور یہ بھی یاد رہے کہ13اور 14فروری کی درمیانی رات ہارٹ اٹیک کے بعد 95سالہ ماں جی کے آخری لمحوں میں آخری کوششیں کرنے والے ڈاکٹر جب انہیں انجیو پلاسٹی کیلئے لے جانے لگے تو چپ چاپ ایک طرف کھڑے جنرل راحیل کو دیکھ کر ایک ڈاکٹر نے جب یہ کہہ کر تسلی دی کہ ’’ سر فکر نہ کریں،آرمی چیف کی والدہ کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی ‘‘ تو ان کمزور لمحوں میں جنرل راحیل شریف مضبوط لہجے میں بولے ’’ ان کا صرف اس لئے زیادہ خیال کرنا کہ یہ نشانِ حیدر لینے والے بیٹے کی ماں ہیں ‘‘۔
اب یہ پڑھیں !
ایک وہ عربی شہزادہ جو اپنے ذاتی طیارے پر آیا ،جسکا 3وزراء نے ائیر پورٹ پر استقبال کیا اور پھر جسے خصوصی پروٹوکول میں اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ، اسی شہزادے نے جس شام اپنے لاؤلشکر کے ساتھ ہوٹل میں ڈیرے ڈالے اس سے اگلی صبح ہوٹل انتظامیہ نے دیکھا کہ عجیب وغریب حلیوں والے 5سات لوگ انواع واقسام کے کھانے اٹھائے آرہے ہیں ،جب پوچھا گیا کہ آپ کون اور یہ سب کیا تو جواب ملا ’’ ہم پرنس کے خدمتگار اور یہ ہے پرنس کی پسندکی جگہ سے لایا گیا ان کا پسندیدہ ناشتہ ‘‘ پھر جب ڈھلتی دوپہر میں لنچ اور عشاء کے بعد یہی لوگ ڈنر کے ساتھ بھی آن پہنچے تو ڈیوٹی منیجر نے شہزادے کے پاکستانی اسٹاف افسر کو کمرے میں فون کر کے کہا کہ ’’ ایک تو یہ ہوٹل کی پالیسی نہیں کہ کسی کیلئے کھانا باہر سے آئے اور دوسرا آپکا کھانا آتا بھی اس طرح ہے کہ کسی کے ہاتھ میں نان تو کسی کے سر پر سالن کا دیگچہ اور کسی کی بغل میں سلاد اور چٹنیوں کے لفافے ، ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ کوئی فائیو اسٹار ہوٹل نہیں کوئی مسافر خانہ یا ریلوے اسٹیشن ہے ،برائے مہربانی باہر سے کچھ منگوانے کی بجائے ہمیں بتائیں ہم آپ کو سب کچھ بنا کردیں گے لیکن ا گلے دن جب نہ صرف صبح بلکہ دوپہر کو بھی یہی کچھ دوبارہ ہوا تو ڈیوٹی منیجر نے جنرل منیجر کو آگاہ کیا اور پھر جب جنرل منیجر نے شہزادے کے اسی پاکستانی اسٹاف افسر سے بات کی تو وہ بولا’’ میں تو کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ کھانا پرنس کی خواہش پر باہر سے آرہا ہے اور جب تک پرنس چاہیں گے تب تک کھانا باہر سے آتا رہے گا ‘‘ ،یہ جواب سننے اور کافی سوچ بچار کے بعد جنرل منیجر نے اسٹاف افسر کو دوبارہ فون کرکے کہا کہ’’ میں پرنس سے خود بات کرنا چاہتا ہوں لہٰذا میری ملاقات کروائیں‘‘ ،خیر رات گئے پرنس کا دیدار نصیب ہوا تو جنر ل منیجر نے جب رائل سوئیٹ کے ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز پرنس کے سامنے کھڑے کھڑے اپنی بات گوش گزار کی تو انتہائی ناگواری سے شہزاد ہ بولا ’’ تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے کہ میں کیا کھاتا اورکہاں سے منگوا کر کھاتا ہوں ‘‘ یہ سن کر جنرل منیجر نے عرض کیا ’’ مگر ایکسی لینسی یہ ہوٹل کی پالیسی نہیں ہے ‘‘ مسلسل ٹی وی کے چینل بدلتے پرنس نے جنرل منیجر کو دیکھے بغیر غصیلے انداز میں کہا ’’میں نے جو کہنا تھا کہہ دیااب تم جاسکتے ہو ‘‘ لیکن جب جنرل منیجر نے جانے کی بجائے پھرکچھ کہنے کی کوشش کی تو اچانک ٹی وی کا ریموٹ دیوار پر مار کر پرنس چیخا ’’تم بے وقوف ہو یا بہرے ، تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا… یہ میری مرضی ہے کہ میں کیا کھاؤں اور کہاں سے منگوا کر کھاؤں ، تمہاری یہ جرأت کہ مجھے ہوٹل کی پالیسی سمجھانے آگئے‘‘ یہ کہہ کرغصے میں ہانپتے کانپتے پرنس نے لمحہ بھر کیلئے رک کر اپنی سانسیں درست کیں اور پھر چلایا ’’ اس ہوٹل کا مالک کون ہے ‘‘ چپ چاپ کھڑے جنرل منیجر نے جب بتایا کہ ہوٹل کے مالک صدر الدین ہاشوانی ہیں تو شہزادہ بولا ’’ میں 5منٹ بعد نیچے آرہا ہوں تم اپنے مالک کو بلالو کیونکہ میں ابھی اور اسی وقت یہ ہوٹل خریدنا چاہتا ہوں ‘‘ اور پھر جب چیک بک ہاتھ میں پکڑے شہزادہ واقعی نیچے آگیا اور جب جنرل منیجر کی سمجھانے بجھانے کی ہر کوشش رائیگاں گئی تب جنرل منیجر نے مجبوراً صدرالدین ہاشوانی کو فون کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کرنے کے بعد کہا کہ ’’ اس وقت چیک بک لئے ایکسی لینسی میرے سامنے کھڑے ہوٹل کی قیمت پوچھ رہے ہیں ‘‘یہ سن کر صدرالدین ہاشوانی بولے ’’ پرنس کو میرا سلام دے کر پہلے تو یہ بتانا کہ میں نے ان کے رہنے اور کھانے پینے کے تمام اخراجات معاف کئے اور پھر ا نہیں اگلے آدھے گھنٹے میں ہوٹل سے نکال کر میرا یہ پیغام دینا کہ ’’ دنیا میں نہ تو ہر شے بکاؤ ہوتی ہے اور نہ ہی ہر چیز خریدی جا سکتی ہے ‘‘یہ کہہ کراُدھر صدرالدین ہاشوانی نے فون بند کیااوراِدھر ہوٹل انتظامیہ حرکت میں آگئی اور پھر آدھا گھنٹہ کیا 20منٹ بعد ہی ہکا بکا پرنس اپنی دھونس ،دھمکیوں اور خدمتگاروں سمیت ہوٹل سے روانہ ہو چکا تھا ۔
تو دوستو! بتانا صرف یہ ہے کہ اگر نیت صاف اور بھروسہ اللہ پر ہو توپل صراط چاہے طاقت کا ہو یا دولت کا ، بندہ پار کر ہی جاتا ہے !
تازہ ترین