• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اس وقت مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں، ان کی یہ مقبولیت محض کرکٹر ہونے کی وجہ سے نہیں، کرکٹ کے بعد انہوں نے ایک سماجی رہنما کے طور پر بہت نام کمایا اور اب وہ پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ اس مقبولیت کی کئی ایک وجوہات ہیں مثلاً جس دور میں پاکستانی سیاست کرپشن سے آلودہ ہے اور کئی اراکین اسمبلی اپنے اپنے مہا کرپٹ لیڈروں کے تحفظ کے لئے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔عمران خان نے کرپشن کے خلاف علم بلند کر رکھا ہے۔ ملک میں سفارش کا دور دورہ ہے اور اس عہد میں عمران خان سفارش کے خلاف باتیں کررہا ہے۔ پاکستان کے بڑے سیاستدانوں کی دولت ملک سے باہرہے مگر عمران خان کا بیرون ملک ایک مرلہ بھی نہیں۔ عمران خان لوٹا ہوا پیسہ ملک میں لانے کی باتیں کررہا ہے اسی لئے’’چوروں کی بارات‘‘ اس کی مخالفت کررہی ہے۔ عمران خان پاکستان کو آگے لے جانے کی باتیں کرتا ہے جبکہ ہمارے باقی بڑے بڑے لیڈر محض دولت کی ہوس میں پاکستان کی پروا ہی نہیں کررہے، ہمارے کرپٹ سیاستدانوں نے عام آدمی کے لئے بہت سے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ عمران خان بند دروازوں کو کھولنے کی باتیں کررہا ہے۔ ہمارے کرپٹ نظام کے بڑے مگر مچھ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو نظر انداز کرکے اپنی تجوریاں بھرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں، انہیں دولت کی فکر ہے اور عمران خان ملک کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نکال کر ایک خوشحال پاکستان کا خواہشمند ہے۔ عمران خان پاکستان کی عظمت کا قائل ہے جبکہ پچھلے کئی سالوں کی سیاسی قیادت نے پاکستان کو دلدل میں پھنسایا ہوا ہے۔ دیگر لیڈروں کے پاس کل آبادی کے ساٹھ فیصد یعنی نوجوانوں کے لئے کوئی پروگرام ہی نہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملک میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد چالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ بے روزگاری انہیں غربت کی چکی میں پیس رہی ہے جبکہ عمران خان ان نام نہاد لیڈروں سے مختلف ہے۔ وہ نوجوانوں کو ایڈریس کررہا ہے اسی لئے عمران خان نوجوانوں میں مقبول ترین ہے۔ 2013میں مک مکا سیاست کے ٹھیکیداروں نے نظام کے اہم پرزوں کو خرید کر عمران خان کو الیکشن ہروایا تھا۔ اب یہ کام بھی مشکل نظر آرہا ہے، اس لئے وہ پھر آپس میں مل گئے ہیں۔ عمران خان تعلیمی اداروں اور میدانوں کو آباد دیکھنا چاہتا ہے جبکہ دوسرے بیرونی ملکوں میں ا پنی دولت کے انبار دیکھنا چاہتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ’’جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ لو کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے‘‘۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان کو گزشتہ کئی سالوں سے گڑ بڑکرنے والے ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے نظام کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا ہے۔ ان کی وجہ سے ہی نظام لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ اب تو معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ ایک طرف اکلوتا عمران خان ہے اور دوسری طرف لٹیروں کا ایک ہجوم، مقبولیت کا یہ عالم کہ لفظ’’پھٹیچر‘‘کہے تو پورے عالم میں دھوم ہو۔
یہ باتیں مجھے اس لئے یاد آرہی ہیں کہ دو روز پہلے عمران خان نے ایک تعلیمی کانفرنس میں پاکستان کے تعلیمی نظام کا نوحہ پڑھا۔اس نے غیر ملکی مہمانوں کی خاطر دو چار جملے انگریزی میں ادا کئے اور پھر کہا کہ میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا۔ یہ بات ایک سیاسی رہنما کی قومی سوچ کی عکاس ہے، ورنہ یہاں تو لوگوں کو انگریزی نہیں بھی آتی تو وہ انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ یوسف رضا گیلانی نے واشنگٹن میں کی تھی جب وہ وہاں کے میڈیا اور تھنک ٹینک کے سامنے بے بس نظر آئے تھے جس پر عابدہ حسین نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا تھاکہ ’’یوسف رضا گیلانی ملتان کا پڑھا ہوا ہے، اسے انگریزی کا کیا پتا‘‘۔ پرچیوں والی مثال تو آپ سب کو پتا ہے۔ جب عام پاکستانی کسی بچے کو سودا سلف لینے کے لئے بھیجتے ہیں تو پرچی لکھ کر دیتے ہیں، ایسے مناظر اوباما کے سامنے پیش آتے ہوئے آپ نے خود دیکھے ہوں گے۔
بات ہورہی تھی ایک تعلیمی کانفرنس کی۔ عمران خان نے ملک میں رائج تین مختلف تعلیمی نظاموں پر تنقید کی اور برملا کہا کہ ایک تعلیمی نظام ہونا چاہئے۔ ایک قوم بننے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ عمران خان نے درست کہا کہ’’22لاکھ بچے مدرسوں میں پڑھتے ہیں، آٹھ لاکھ انگلش میڈیم اور سوا تین کروڑ بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ ان سب کے لئے ایک نظام تعلیم ہونا چاہئے۔ اعلیٰ تعلیم انگریزی میں حاصل کی جائے مگر جو بنیادی تعلیم ہے وہ اپنے کلچر سے جڑی ہوئی ہو۔ اس میں اپنی شناخت ہو، تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، پاکستان کی ترقی کے لئے تعلیم کو پہلا ایجنڈا بنانا ہوگا۔ پاکستان میں سوا دو کروڑ بچے تعلیم سے محروم، سکولوں سے باہر کیوں ہیں، سب کے لئے تعلیم ہونی چاہئے، سب کے لئے ایک جیسا نظام تعلیم ہونا چاہئے، وفاق میں آکر لوٹا ہوا پیسہ واپس لاکر تعلیم پر خرچ کریں گے‘‘۔
یہ آخری جملہ ایسا تھا جس نے کرپٹ سیاسی نظام کے دیوتائوں کو پریشان کردیا۔ پاکستان کا کرپٹ سیاسی ٹولہ تو پہلے ہی عمران خان کے خلاف ہے۔ نظام تعلیم ایک کرنے کی بات کرکے عمران خان نے نجی تعلیمی اداروں کے بڑے جاگیرداروں کو بھی اپنے خلاف کرلیا ہے جو ہر مہینے کے شروع میں لوگوں سے اربوںروپیہ بٹورتے ہیں اگر نظام ایک ہوگیا تو ان کے ’’ارب‘‘کہاں جائیں گے۔ پہلے ہی 33ہزار بچے خیبر پختونخوا میں پرائیویٹ اسکول چھوڑ کر سرکاری ا سکولوں میں داخل ہوچکے ہیں، نجی اداروں کے جاگیردار خیبر پختونخوا میںمررہے ہیں،کیونکہ ان کی دولت کے سانپ کی دم کٹتی جارہی ہے اوپر سے عمران خان نے صوبہ خیبر پختونخوا کا تعلیمی بجٹ 139ارب روپے کردیا ہے جو گزشتہ تعلیمی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔خیبر پختونخوا میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں لوٹ مار کا کھیل بہت حد تک ختم ہوچکا ہے۔
اس کانفرنس میں مجھے تو عمران خان ایک مکمل انقلابی رہنما کے طور پر نظر آیا۔وہ نظام تعلیم کو اپنی ثقافت سے جوڑ کر رکھنا چاہتا ہے۔مجھے اس کی اس بات سے ایک پرانا واقعہ یاد آگیا۔ محترمہ خدیجہ ضیاءڈار ایف سی کالج لاہور میں پروفیسر تھیں ۔ ان کی ایک بیٹی فاطمہ ضیاء ڈار ہمارے ساتھ گورنمنٹ کالج لاہور یعنی جی سی یو میں پڑھتی تھیں جبکہ دوسری بیٹی زینب ضیاء ڈار کنیرڈ کالج لاہور میں پڑھتی تھیں اور وہ انگریزی کی شاعر تھیں۔ مجھے ماڈل ٹائون لاہور میں ان کے گھر جاکر اس وقت بہت خوشی ہوئی جب پروفیسر صاحبہ اور ان کی بیٹیاں پنجابی بول رہی تھیں، تینوں ماں بیٹیاں انگریزی کی ماہر مگر اپنی مادری زبان سے جڑی ہوئیں، اپنی ثقافت سے شناسا نظر آئیں۔ فاطمہ ضیا ءڈار ایم اے انگریزی کرنے کے بعد لاہور کے ایک بڑے نجی اسکول کی مشیر بنیں تو انہوں نے فیصلہ کیاکہ بچوں کو پنجابی زبان لازمی سکھائی جائے۔ بس اس فیصلے کے بعد سب لوگ فاطمہ ضیاء ڈار کے دشمن بن گئے، لوگ کہنے لگے کہ ’’ہم اپنے بچوں کو صرف انگریزی سکھانا چاہتے ہیں، پنجابی سے تو جاہل بن جائیں گے‘‘۔ مجھے جاہل لوگوں پر ا فسوس ہوتا ہے کہ وہ انگریزی کو قابلیت سمجھ بیٹھے ہیں، انگریزی صرف ایک زبان ہے، ذہانت کی علامت نہیں، جاہلوں کے لئے صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ انگلستان میں پاگل بھی انگریزی میں بات کرتے ہیں، بس اور ٹرک چلانے والے بھی‘‘قابلیت اور چیز ہے وہ کسی زبان میں بھی ہوسکتی ہے، زبان تو محض اظہار کا ذریعہ ہے۔ عمران خان سچ کہتا ہے کہ سب کے لئے ایک نظام ہونا چاہئے اور نظام ہماری ثقافت سے جڑا ہونا چاہئے۔
چند ہفتے قبل ڈاکٹر رخشندہ پروین نے عورتوں کی کانفرنس منعقد کر رکھی تھی جہاں برسوں بعد پروفیسر خدیجہ ضیاء ڈار اور ان کی بیٹی زینب ضیاء ڈار سے ملاقات ہوئی۔ پروفیسر صاحبہ نے بھری محفل میں مجھے پنجابی ہی میں مخاطب کیا، مجھے اس بات پر بہت خوشی ہوئی کہ زینب کا بیٹا حسین پنجابی بول رہا تھا۔ ہمارے جاہل پنجابی، اردو، سندھی، بلوچی، پشتو ا ور سرائیکی سمیت دیگر علاقائی زبانوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے جاہلوں نے انگریزی اپنا لی ہے، وہ اپنا آپ چھوڑ کر خود کو بھول گئے ہیں اور جو قوم خود کو بھول جائے اسے پھر کون یاد رکھتا ہے۔ ڈاکٹر عمرانہ مشتاق مانی ؔکا شعر پڑھتے جائیے کہ؎
پھول اس گلزار میں کھلتے رہیں ادراک کے
گیت، مانی ؔگنگنائیں آپ ارض پاک کے



.
تازہ ترین