• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب ہمارادوست،ایران پڑوسی ہے،مولانا فضل الرحمٰن

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جمعیت علماءاسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ سعودی عرب ہمارا دوست لیکن ایران ہمارا پڑوسی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جب دنیا میں کہیں ریاستوں کے درمیان ایک تنائو کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو پھر اس کو نرم کرنا اس میں کردار ادا کرنا جماعتوں سے بالاتر ہوتا ہے اس میں ریاست کا کردار ہوتا ہے ۔ہم پاکستان کی حکومت کو مسلسل یہی مشورہ دے رہے ہیں کہ پاکستان اسلامی دنیا کے اندر وحدت کے لئے ایک اچھا کردار ادا کر سکتا ہے یہ کوشش ہماری جاری ہے اور یہ اِن پراسیس بھی ہے ۔تاہم اس وقت بھی ہمارے پاس ایران کا وفد موجود ہے اور ہمارے اسٹیج پر موجودہے ۔ہم ریاست کو باوور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سعودی عرب ہمارا دوست ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایران ہمارا پڑوسی ہے پڑوسی کے ساتھ بہت سے مشترکات ہوتے ہیں اگر آج راحیل شریف صاحب چالیس ممالک کے سپہ سالار بنے جارہے ہیں تو اس میں بھی اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ اتحاد اور ہماری یہ قیادت مسلمانوں کے آپس کے اختلافات میں فریق نہیں بنے گی ۔میں راحیل شریف کے جانے پر حق میں ہوں اگر مسلمانوں کی اندر تفریق کا سبب نہ بنائیں ۔ایران کے معاملے میں ریاست کو حکمت عملی بنانی چاہیے یہ پارٹیوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی ۔وہ جیو نیوزکے پروگرام’’جرگہ‘‘میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔مولانا فضل الرحمن کا مزید کہنا تھا کہ  ہم ایک تحریک اور مشن ہیں،ہمارے جدوجہد کے سو سال پورے ہوئے تو ہم نے محسوس کیا آخر ہم نے سو سال کیسے گزارے اس کا نصب العین، عقیدہ ، نظریہ کیا تھا کس مقصد کے لئے ہم نے اتنی جدوجہد کی، یہ ہم اگلی نسلوں، کارکن اور قوم تک کیسے منتقل کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے حوالے سے دنیا میں ایک تاثر قائم کیا جارہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ جو ہمیں فلسفہ ملا ہے اس سے ہم دنیا کو آگاہ کریں یہ اسلام کی خدمت ہوگی۔ہم نے ایک پرامن اور سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنانا  ہے اور صرف مسلمانوں کا اس پر انحصار نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی وحدت کی بنیاد پر ہمیں ایک ہوجانا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا ہماری جماعت میں بریلوی مکتب فکر کے لوگ ہیں کیا صرف دیو بندی ہیں ڈیرہ اسماعیل خان میں وہاں مجھے بریلوی شیعہ دونوں ووٹ دے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا شام کے مسئلے میں روس اور امریکہ بھی اتر آیا ہے دونوں ملکوں نے وہاں پر بمباری کی ہے ہم عالمی قوتوں کی اس روش سے بھی اختلاف کرتے ہیں اور برملا اختلاف کر رہے ہیں کہ آپ انسانیت کا خون کرنے پر کیوں گامزن ہیں۔پاکستان میں عوام کو اکٹھا کرنا ہو تو کوئی پارٹی جمعیت علماء اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتی چاہے۔جلسے میں خواتین سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے ایک ایک کارکن جو یہاں ہے وہ اپنے گھر کی تمام خواتین کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کچھ لوگ چار چار بیویوں کی، خواتین ضرور حق دیتی ہیں اور پاکستان میں اس حق کو دینے کے جو انداز اختیار کئے گئے ہیں اس انداز سے ہماری خواتین بھی اجتناب کرنا چاہتی ہیں اور ہمارے مرد بھی اجتناب کرنا چاہتے ہیں۔یہ اجتماع ہمارے توقعات سے کہیں زیادہ بڑا اورکامیاب تھا۔ اختلاف کے ہم قائل نہیں ہیں مخلوط نظام ہو اور ڈی چوک بنا ہوا ہو اس اعتبار سے دوہری مشکلات کا سامنا تھا ہم نے خواتین کا اجتماع کیا ہے،ایک ہفتہ پہلے کیا ہے۔انہوںنے مزید کہا ہر ایک کا اپنا اپنا کلچر ہوتا ہے ہمارا کلچر یہ ہے کہ ہمارے جلسے میں تلاوتِ قرآن پاک ہوگا ، امام کعبہ ہوگا نعتیں ہوگیں رسول ﷺ کی مدحت ہوگی ہمارے ہاں بھی طبیعت کی خوشحالی کے لئے سامان موجود ہے لیکن وہ روحانی حوالے سے زیادہ ہے اور وہاں پر جسمانی حوالے سے زیادہ ہے موسیقی کو جائز امر نہیں بتایا علماء کرائم نے اور کسی دور میں بھی نہیں اور کسی بھی مسلک میں نہیں ۔ عمران خان اور مولانا سمیع الحق کو جلسہ پر دعوت دینے سے متعلق انہوں نے جواب دیا کہ میں جواب رکھتا ہوں لیکن آج کے ماحول میں اس کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتا اس کا جواب ایک ہفتے بعد دوں گا ۔ ہم سیاسی جماعت ہیں آنے والے وقت کے بارے میں انتخابات کے بارے میں جماعت کے اداروں کو بلانا ہے اور مشاورت کے ساتھ حکمت ِ عملی ترتیب دینی ہے وہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا جمعیت علماء ہند اور جمعیت علماء اسلام کا کوئی باہمی تنظیمی تعلق نہیں ہے وہ ہندوستان کے حالات میں اپنی سیاست وہاں کی صورتحال کے حساب سے کرتے ہیں اور ہم پاکستان میں ہیں پاکستان کے سیاسی حالات سے وابستہ ہیں اور ہم یہاں کی سیاست کرتے ہیں پیپلز ٹو پیپلز تعلقات دنیا بھر میں ہوتے ہیں اس حوالے سے تعلقات ہمارے بھی ہیں ۔ آج ہم اس بنیادی فلسفہ پر اتفاق کر رہے ہیں کہ ہم جس ملک میں بھی ہوں جس جس حالات سے ہمارا واسطہ ہے جس جس ملک کا جو آئین اور قانون ہے اس کے دائرے میں رہتے ہیں پرامن ہے سیاسی ہیں ۔ایک تعلق ہے عوام کا عوام کے ساتھ لوگوں کا لوگوں کے ساتھ ایک تعلق ہے حکومت کا حکومت کے ساتھ ریاست کا ریاست کے ساتھ اب ریاستوں کے جو تنازعات ہیں وہ حکومتیں بھی طے نہیں کرسکتیں جب تک ریاست ان بنیادوں کو ٹھیک نہ کریں اور حکومتیں تعلقات میں سختی اور نرمی لاسکتی ہیں عوام کا ان چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یہ ضرور ہے کہ وہ اپنی اپنی ریاست کے موقف کی حمایت کرتے ہیں متنازعہ معاملات میں ہندوستان کے لوگ وہاں کی سیاست کر رہے ہیں ہم پاکستان کی کر رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے اندر بہتر تعلقات کے لئے 2003 ء؁ میں جمعیت علماء اسلام کا وفد یہاں سے گیا تھا اور دس دن وہاں گزارے تھے اور ان حالات میں گیا تھا جب سارے رستے بند تھے سفارتخانے بھی بند تھے ہم نے وہاں محنت کی ایک فضاء بنائی اسی سال کے اندر اندر دونوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔ ایسے حالات پھر آتے ہیں تو ہماری خدمات اپنے وطن کے لئے ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ غنیمت کی بات ہے اس وقت مختلف مکاتب فکر کی تنظیمات ایک تنظیمات مدارس میںجڑی ہوئی ہیں ان کی پالیسیاں مشترکہ طور پر بنتی ہیں وہ بیانیہ مشترکہ طور پر دے رہے ہیں مدارس کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہو تو سب مل کر ایک موقف اختیار کرتے ہیں ان حالات میں بہت بڑی بات ہے کہ تنظیمات مدارس کے نام سے تمام مدارس متحدہیں اور ایک پلیٹ فارم پر بیٹھتے ہیں ۔اہل مغرب کے لئے میرا پیغام ہے کہ اسلام کو یا مذہب کو آپ نے کیوں وابستہ کیا ہوا کہ جہاں اسلام یا مذہب کا تصور ہوگا وہاں اس کے ساتھ انتہا پسندی وابسطہ ہوگی وہاں اس کے ساتھ شدت پسندی ہوگی یہ آپ غلط تعبیر پیش کر رہے ہیں۔ مغربی دنیا جس نے اسلامی دنیا پر آگ لگائی ہوئی ہے اس کا فلسفہ امن ہے شام، لیبیا،عراق، یمن اور افغانستان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے ہم نے ان سے کہا انسانی حقوق کو تحفظ ملے گا تو امن ہوگا ۔ اسلام آپ کو دعوت دے رہا ہے اور آپ کی روش کو تبدیل کرنے کے لئے ہم آپ کو پیغام دے رہے ہیں۔ آپ پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کے اس حق کو تسلیم نہیں کر رہے اور پوری دنیا پسماندگی کا شکار ہے اور ہم قرضوں کی اقتصادی پالیسی کے بجائے سرمایہ کاری کی اقتصادی پالیسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم مغرب کی اقتصادی نظام کے مقابلے میں ہم چائنا کے نظام کو اور اس کے سرمایہ کاری کے تصور کو بہتر سمجھتے ہیں۔شدت پسند گروپوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جو تمام مذہبی جماعتوں کی روش ہے جو تمام دینی مدارس کی روش ہے اور جمعیت علماء اسلام کی روش ہے ہم اپنے اس طرزِ عمل سے پیغام دینا چاہتے ہیں ان چھوٹے چھوٹے گروپوں کو کہ آپ اس کی تقلید کریں اپنی روش ترک کردیں یہ اسلام کی اصل تعریف ہے یہ اجماع ہے یہ اسلام کی اصل تعبیر ہے جس پر سب دنیا متفق ہے ، دو ، دو، چار چار لوگوں کی شریعت کی اپنی تشریحات کرنا اور اس پر دلائل دے دینا اس کی کوئی حیثیت نہیں۔افغان طالبان کے لئے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر حملہ کیا گیا اس حکومت کو سبوتاژکیا گیا جس حکومت کو پاکستان نے رسماً تسلیم کیا لہٰذا اس دفاع کو جائز دفاع سمجھتے ہیں تاہم جنگ کی روش کسی ملک کے لئے ترقی کا باعث نہیں ہوتی ہم ان کو مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں لیکن اس کی خود مختاری ہم اپنے قبضے میں نہیں لینا چاہتے۔ مستقبل کے وزیر اعظم کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ آپ کس کو وزیراعظم دیکھ رہے ہیں عمران خان کویا فضل الرحمان کو جس کا جواب وہاں موجود پبلک نے دیا کہ ہم فضل الرحمان کو وزیراعظم دیکھ رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمان کامسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کو جواب مل گیا۔قبل ازیں سینئر صحافی اور جیو نیوز کے پروگرام’’جرگہ ‘‘ کے میزبان سلیم صافی نے اپنے تجزیے میں  کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت عسکریت  پسندی اور فرقہ واریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی رہی جس بندے نے فرقہ یا عسکریت  پسند بن کر بندوق کا راستہ اپنایا۔ مولانا نے ان کو اپنی صفوں سے نکال دیا وہ اگر اپنے پیروکاروں کو سیاست اور جمہوریت سے وابستہ نہ رکھتے تو ان لاکھوں دیوبندیوں کا  عسکریت پسندی اور فرقہ پرستی کے میدان میں کودنے کا خطرہ موجود تھا۔انہوں نے مدارس کے طلبا اور علماء کو جمہوریت اور سیاست کے جوابی بیانیہ کے ذریعہ عسکریت  پسندوں کے بیانیئے کو اپنانے سے روکا اور یہی وجہ ہے کہ عسکریت  پسندوں نے ان کو اپنی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھ کر رستے سے ہٹانے کے لیے تین مرتبہ انہیں خود کش حملوں کا نشانہ بنایا ۔مولانا حسن جان سے لے کر مولانا معراج الدین تک ان کی جماعت کے درجنوں رہنما ئوں کو قتل کیا گیا۔مورخ جب تاریخ لکھے گا تو شاید  عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کے مقابلے میں مولانا کے کردار کو لبر ل سیاستدانوں سے زیادہ اہم قرار دے ۔سلیم صافی نے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ متحدہ مجلس عمل کا مجموعی کردار میری دانست میں کبھی لائق تحسین نہیں رہا ، وہ جنرل پرویز مشرف کے ڈبل گیم میں ایک مہرے کے طور پر تخلیق اور استعمال ہوا لیکن اس کا ایک یہ پہلو خوش آئند تھا کہ اس فورم کے تحت مولانا فضل الرحمان نے اپنے دیو بندیوں کو اہل تشیع ، بریلوی اور جماعت اسلامی کے علماء کے ساتھ بٹھا دیا اور پھر پانچ سال تک انہوںنے ان سب کو ساتھ چلائے رکھا جس کی وجہ سے اس فرقہ ورانہ لٹریچرکا مضر اثر بڑی حد تک کم ہوگیا  جو ماضی میں ان سب مکاتب فکر کے علماء نے ایک دوسرے کے خلاف تخلیق کیا تھا ۔ 
تازہ ترین