اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) چوہدری نثار علی خان وفاقی وزیر داخلہ ہو نے کے ناتے سے صرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا ہدف ہی نہیں ہیں اپنی مثالیت پسند افتاد طبع کی وجہ سے بدعنوان عناصر کےلیے بھی گردن زدنی قرار پارہے ہیں ان بدعنوان عناصر کی پوری منڈلی جہاں جہاں بھی موجود ہے ا ور اختیار واقتدار کے ذریعے بدستور ملک کو لوٹ رہی ہے یکساں راگ میں چوہدری نثار علی کے خلاف صف آرا ہے مسلح افواج نے جہاں قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے صاف کرنےکےلیے سردھڑ کی بازی لگائی وہاں رینجرز نے کراچی کو جسے چھوٹا پاکستان کہا جاتا ہے دہشت گردوں، بھتہ خوروں،ہدف بنا کر قتل کرنے والوں اور اغوا کا روں کو نیست ونابود کرنے کےلیے اپنی بیش بہاجانوں کا نذرانہ پیش کرکے اور خطرات سے کھیلتے ہوئے امن کا گہوارہ بنادیااس مقصد کےلیے ان کے شروع کیےگئے آپریشن کی زد میں جب دہشت گردوں کے سہولت کار آئے تو انتظامیہ کے سرپرست چیخ اٹھے ان کی خواہش تھی کہ ان بڑے ناموں کو احتساب کی کارروائی سے بچالیا جائے ۔ پہلے قدم کے طور پر کراچی میں بحال ہوئے امن کو دائو پر لگاتے ہوئے رینجرز کے بہادر جوانوں کےکام میں رکاوٹیں ڈالی گئیں ان کی ذمہ داریوں میں توسیع کی رسمی منظوری میں رخنہ اندازی کی گئی رینجرز کے اختیارات کے خلاف صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرائی گئی حالانکہ اس میں اسمبلی کے نصف کے لگ بھگ ارکان نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا تھا اس تمام ترکے باوجود وفاقی حکومت نے ملکی آئین کو سینے سے لگائے ر کھا اور اس میں درج اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے رینجرز کو مطلوبہ اختیارات تفویض کردیئے۔ لٹیروں اور ڈاکوئوں کے گروہ کو اپنا ہر ہتھکنڈہ ناکام ہوتا دکھائی دیا تو اس نے صوبائی مقننہ کا سہارا لیکر ایسے نادر شاہی اختیارات انتظامیہ کو تفویض کردیئے جن کا موجودہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی رو سے صوبائی انتظامیہ کسی بھی مقدمے کو بلاتردد کسی بھی وقت واپس لینے کے اختیار سے لیس کردی گئی۔ انتظامہ کواس نوع کا اختیار شاید مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں بھی حاصل نہیں تھا۔ان تمام حربوں کے باوجود دال گلتے نظرنہ آئی تو اب متعلقہ صوبے کی انتظامیہ کے مہروں اور ہمنوائوں نے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر تیر آزمائی شروع کردی ہے وہ بلحاظ منصب رینجرز کے امور کے نگہبان و فاقی وزیر ہیں۔