اسلام آباد( نمائندہ خصوصی ) ترجمان وزارتِ داخلہ نے میڈیا میں شائع لارڈ نذیر کے بیان کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الطاف حسین کے معاملے میں پچھلی حکومت نے کیا پالیسی اختیار کی یا کیااقدامات کئے اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ڈالی جاسکتی۔موجودہ حکومت عمران فاروق قتل کیس، منی لانڈرنگ اور تشدد پر اکسانے جیسے کیسز کو نہایت سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ان تینوں کیسز میں جتنا تعاون موجودہ حکومت کی جانب سے برطانوی حکام کو فراہم کیا گیا اس کی تصدیق اور تعریف خود اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے متعدد بار کی گئی۔جہاں تک ملزمان تک براہ راست رسائی کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ معاملے کو قانون کے مطابق انجام تک پہنچانے کے لئے پاکستان نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو عمران فاروق قتل کیس میں ملزمان تک براہ راست رسائی فراہم کی۔ کاش لارڈ نذیر صاحب یہ بھی وضاحت کردیتے کہ کن امور میں پاکستان کی جانب سے تعاون کی فراہمی میں کمی واقع ہوئی۔یہ امر حیران کن ہے کہ وزیرِ داخلہ کے ساتھ ملاقات میں لارڈ نذیر نے واضح طور پر اس سلسلے میں موجودہ پاکستانی حکومت کے اقدامات کی تعریف کی اور اپنی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارروائیوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اپنے انٹر ویو میں اس کے بالکل خلاف رائے کا اظہار کیا ہے۔علاوہ ازیں ترجمان وزارتِ داخلہ نے کہا کہ جیسا کہ وزیرِ داخلہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس بنیادی طور پر دس سال پرانا کیس ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی ناقص پیروی کی وجہ سے اس کیس کا فیصلہ عدالت کی جانب سے ملزمان کے بری ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔اس مسئلے کو از سرر نو اٹھانے میں بڑا مسئلہ قانونی سقم کی وجہ سے تھا یعنی ایک مقدمے میں عدالت سے بری ہونے کی صورت میں اسی کیس میں از سر نو تفتیش نہیں ہو سکتی۔ دوئم جب سارے شواہد اور خاص طور پر ڈیجیٹل ریکارڈ مثلاً کمپیوٹرز، سرور اور دیگر آلات اسی کمپنی کو ہی واپس کر دیے گئے ہوں جن پر الزام ہو توایسے حالات میں بے جا تنقید کرنے والے حلقے خود ہی بتائیں کہ وہ کون سی بنیاد ہے جن پر ان کے بقول کچھ کر دکھانے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود انتہائی محنت اور جانفشانی سے اور مختلف اطراف سے قانونی رائے لینے کے بعد انکوائری کا ایک نئے زاویئے سے آغاز کیاگیاکیونکہ اس کے سارے تانے بانے غیر ممالک کو ترسیل شدہ رقوم سے ملتے ہیں اس لئے برطانیہ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات سے معاونت مانگی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ واضح کرنا نہایت ضروری ہے کہ ایک دس سالہ پرانے کیس جس کے اکثر و بیشتر شواہد مٹا دیے گئے ہیں اور مٹانے والے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں تو اس معاملے کا از سر نواحیاء ایک مشکل ترین کام ہے مگر چونکہ اربوں روپوں کا سرمایہ صرف ایک چینل سے بیرون ملک بھیجا گیا اس لئے اس نہایت اہم کیس کو از سر نو فعال کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔