• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانامالیکس کے بکھیڑے کو پاکستان کی سرزمین پر نازل ہوئے قریب قریب ایک سال ہو چکا ہے۔ رواں برس 4جنوری کو سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے نوتشکیل کردہ پانچ رُکنی لارجر بنچ نے مقدمے کے ہر پہلو پر فریقین کے وکلاء سے سوالات اُٹھائے، 23 فروری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور 57دن بعد جمعرات کو اس کا تفصیلی فیصلہ عوام کے سامنے لایا گیا۔ یہ فیصلہ سنائے جانے سے قبل پورے ملک میں ایک سسپنس کا ماحول تھا اور ہر پاکستانی ایک گومگو کی حالت میں مبتلا تھا، حتیٰ کہ خود وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی بھی ایک سانس اوپر اور ایک سانس نیچے تھی۔ بعینہٖ تحریکِ انصاف اور پیپلزپارٹی سمیت ہر سیاسی جماعت کے اعلیٰ سے ادنیٰ کارکن تک ہر کوئی ایک تذبذب اور شش و پنج کی سی کیفیت میں تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک اعلیٰ جج نے خود یہ تاثر دیا کہ پاناما لیکس کا فیصلہ20سال یاد رکھا جائیگا۔ بعدازاں ایک معزز جج نے اسے ایک تاریخی اور صدیوں یاد رکھا جانے والا فیصلہ قرار دیا جس سے یہ فضا قائم ہونا شروع ہو گئی کہ ہو نہ ہو، وزیراعظم کو نااہل ہونے سے اب دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ عمران خان کو وزیراعظم کی نااہلی کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے تو جشن مجلوس کا اہتمام بھی کر لیا تھا اور مٹھائیوں کے ٹوکرے بھی بنی گالہ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ شیخ رشید توخوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور ہر طرح سے پُرامید تھے کہ وہ سپریم کورٹ سے حکمرانوں کے تابوت نکلتے دیکھیں گے اور چار قدم تک انہیں کاندھا بھی دینگے۔ فیصلہ سنائے جانے سے ایک روز قبل سپریم کورٹ کے اندر اور باہر ایک ہزارسیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی گویا یہ اعلان کر رہی تھی کہ موجودہ سیاسی نظام کی بساط لپیٹی جانیوالی ہے ۔ اس سے کم تو کوئی سوچنے پر تیار ہی نہ تھا کہ وزیراعظم کو بہرطورمستعفی ہونے کا کہا جائے گا ۔ ایک مخصوص حلقے نے تو یہ ہوا بھی بنا دی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نوازشریف کا بوریا بستر گول کرنے جا رہی ہے، کیونکہ جس دن سپریم کورٹ کی کازلسٹ میں پاناما کا نام ظاہر کیا گیا، اسی روز آئی ایس پی آر کے ترجمان کی طرف سے نیوزلیک کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے حکومت کو براہِ راست پیغام دیا گیا۔ قانونی حلقوں کا ماننا یہ تھا کہ پانامالیکس کا فیصلہ مستقبل کی سیاست کا رُخ متعین کریگا اور یہ ایک ایسا ’’مدر آف جسٹس‘‘ فیصلہ ہوگا کہ آئندہ کرپشن کے تمام دروازے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مقفل ہو جائینگے اور ملک کی تمام لُوٹی ہوئی دولت ہاتھ باندھے واپس تشریف لے آئیگی۔ مگر مگر مگر، ہوا کیا؟ ہوا یہ کہ عمران خان اور شیخ رشید جو بیضوی اور بارانی چولے پہنے، سینے تان کر باجماعت سپریم کورٹ پہنچے تھے، مرجھائے چہروں کے ساتھ سر لٹکائے مجمع سے سرک لئے۔ 549صفحات پر مشتمل پانامالیکس کے تفصیلی فیصلے پر ججز کی رائے 3اور 2سے تقسیم تھی (جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے حمایتی جبکہ بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا)، فیصلے کے موٹے موٹے مندرجات جاری کرتے ہوئے بریکنگ نیوز والوں کی آواز میں بھی پارہ پھیلنا شروع ہو گیا اور ٹی وی اسکرینوں پر نظریں اور کان جمائے بیٹھے منتظرین کے جذبات و احساسات بھی دیکھتے ہی دیکھتے سرد پڑنے لگے۔ فیصلے کے بطن سے جو اصل چیز برآمد ہوئی وہ ہے مشترکہ تحقیقاتی کمیشن (جے آئی ٹی) جو 7دن کے اندر تشکیل پائیگا اور 2ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کریگا جبکہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کے ایک نوتشکیل شدہ خصوصی بنچ (جس کی سربراہی چیف جسٹس خود کرسکتے ہیں) کو ہر دو ہفتے بعد اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اس جے آئی ٹی میں ایف آئی اے، نیب، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا اور یہ تمام ادارے اپنے اپنے ممبر کا نام 7دن میں سپریم کورٹ کو پیش کرینگے۔ عدالتی فیصلے میں وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈی جی نیب اور ڈی جی ایف آئی اے وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے وکلاء کی جانب سے سماعت کے دوران بطورِ ثبوت پیش کیے گئے قطری خط کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ اس بات کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ رقم قطر کیسے منتقل ہوئی، جبکہ گلف اسٹیل ملز کے معاملے میں بھی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔ سب سے اہم نکتہ اس پورے معاملے میں یہ ہے کہ اپنے ہی بیانات و اقوال کی بندگلی میں گِھر جانے کے بعد مدعا علیہان نے اپنے ریسکیو کیلئے جس قطری شہزادے کا خط کورٹ میں پیش کیاتھا، اس کی اچھی ساکھ اور شہرت خود مدعا علیہان کے وکلاء بھی ثابت نہیں کر سکے۔ ایک لحاظ سے تو اکثریتی جج صاحبان نے بھی اس سارے بیانئے کو رد کر دیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ جو دستاویزات پیش کی گئیں وہ طفلانہ کوشش تھی اور ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ وضاحت کی جاتی کہ جتنے درہم کی قطر میں ریئل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کی گئی وہ آنیوالے 20سالوں میں ڈالروں میں کیسے ضرب کھا گئی، لہٰذا ہماری (جج صاحبان کی) رائے میں یہ دستاویز بوگس ہے۔ دستاویزی ثبوت کو بوگس قرار دیئے جانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی ضخیم ججمنٹ میں دو اقلیتی جج صاحبان کیساتھ ساتھ تین اکثریتی ججوں نے جتنے بھی ریمارکس دیئے ہیں وہ مکمل طور پر یا تو وزیراعظم کیخلاف ہیں یا مفروضے ہیں جو کچھ زیادہ صائب نہیں لگتے۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ مریم نواز کو بالکل ہی درکنار کر کے گویا کلین چٹ تھما دی گئی ہے حالانکہ دونوں اطراف کی ججمنٹس میں موصوفہ کی تضاد بیانی صاف نظر آتی ہے۔ مزیدبرآں نیلسن اور نیسکول کے جو جوابات داخل کیے گئے، اس بابت عدالت کہتی ہے کہ ایک دستاویز بھی ایسی پیش نہیں کی گئی جو ظاہر کرتی ہو کہ نیلسن لمیٹڈ، نیسکول انٹرپرائزز، منروا ہولڈنگ، وغیرہ وغیرہ میں سے کوئی ایک بھی حسین نواز کی ملکیت ہو۔ ان کمپنیوں کی حقیقی ملکیت اور فنڈز کے ذرائع تاوقتِ آخر پُراسرار رہے اور اُسوقت حسن نواز اور حسین نواز کے کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے جن سے وہ یہ اثاثے خرید سکتے، براں وقت بھی متعلقہ شخصیت نوازشریف ہی بنتے تھے جو آج بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں۔ اگر وزیراعظم نوازشریف کے ٹیکس ریٹرنز کو مدِنظر رکھا جائے تو مے فیئر جائیدادوں کی ویلیو انکی ظاہر کی گئی آمدن سے میل نہیں کھاتی۔ وزیراعظم نے اپنے دونوں خطابوں میں ان اثاثوں سے کسی بھی نوعیت کے تعلق سے انکار کیا ہے لیکن بظاہر وہ اپنے مؤقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ وزیراعظم، مریم نواز اور حسین نواز، شریف خاندان اور ان کی سیاسی جماعت کے ترجمانوں نے ٹی وی پر بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود، کہ جائز ذرائع آمدن، منی ٹریل، بنکنگ ٹرانزیکشنز موجود ہیں جو وقت آنے پر قانونی فورم پر پیش کی جائیں گی،ایسا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں شاید ہی ایسا عدالتی فیصلہ کبھی آیا ہو جس پر استغاثہ اور مستغیث دونوں ہی مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں اور ہر فریق اسے اپنی فتح قرار دے رہا ہے۔ تحریکِ انصاف، پیپلزپارٹی، (ق) لیگ اور دیگر کئی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بجاطور پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور نواز شریف سے مستعفی ہو نے کا مطالبہ کیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جن دو اداروں پر عدالتِ عظمیٰ نے عدم اعتماد کیا ہے ان کو بھی جے آئی ٹی میں شامل کر لیا گیا ہے اور یہ ادارے اگر پہلے وزیراعظم کو کچھ نہیں کہہ سکے تو اب کیسے تفتیش کرینگے اور پھر ان پر اعتبار کون کریگا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اپنی حیثیت میں متعجب ہونے کے باوجود یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے جس میں دو سینئر ججز نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا ہے اور دیگر تین ججز کے پیش کردہ التزامی متن کی رو سے بھی وزیراعظم 90فیصد نااہل قرار پاتے ہیں، اور 10فیصد ان کی بچت کا جو پہلو نکلا ہے، وہ 60روزہ تحقیقاتی کمیٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فیصلے کی ایک انتہائی اہم رولنگ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم آرٹیکل 62/63پر پورے نہیں اُترے۔
اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ سپریم کورٹ کی اس ججمنٹ کے بعد کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان پر یہ واجب نہیں آتا کہ وہ صادق و امین نہ رہ جانے اور اثاثے چھپانے کے جرم میں وزیراعظم کی قومی اسمبلی کی رُکنیت فی الفور معطل کر دے، جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ حکمرانوں کو کلین چٹ مل گئی ہے، یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ اب بھی سارا معاملہ عدالتِ عظمیٰ کے پاس ہی ہے اور اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ خدا کو حاضرناظر جان کر لکھی گئی تو پھر کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ بظاہر تو یہی تاثر بن رہا ہے کہ مجوزہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم وزیراعظم کے ماتحت ہوگی اور یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اس پر حکومتی دبائو نہیں ہوگا؟ شریف برادران جے آئی ٹیز کے معاملے میں خواہ کتنے ہی طاق و مشاق کیوں نہ ہوں، ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ جے آئی ٹی مکمل آزاد اور خودمختار ہوگی کیونکہ اسکی سرپرستی سپریم کورٹ کا ایک خصوصی بنچ کریگا اور اسکی سربراہی ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کے پاس ہوگی جو براہِ راست وزارتِ داخلہ کا حلقۂ اثر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوئی تو وہ کوئی متبادل راستہ بھی نکال سکتی ہے لیکن افسوس کہ اس جے آئی ٹی کے پاس فرانزک آڈٹ اور دیگر ریکارڈ بیرونِ ملک سے منگوانے کا کوئی اختیار نہیں ہو گا اس لیے جامع تفتیش اور تحقیق نہ ہونے کے برابر ہو گی۔مجوزہ جے آئی ٹی کو نہ تو بیرونِ ملک اثاثوں کی چھان بین کیلئے جانا ہوگا اور نہ ہی وہ کوئی ذاتی سوالنامہ تیار کر سکے گی بلکہ سپریم کورٹ نے الزامات اور سوالات کی ایک طویل فہرست جاری کر دی ہے جن کے جوابات حاصل کر کے اسے سپریم کورٹ میں جمع کروانا ہوں گے ۔ فردِ جرم کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ جے آئی ٹی کی جگہ جناب چیف جسٹس ایک بااختیار عدالتی کمیشن کی تشکیل دیں جس میں متذکرہ چھ اداروں کے علاوہ نیب اور ایف بی آر کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ مجوزہ کمیشن کو قومی و بین الاقوامی فرانزک ماہرین ہائر کرنے اور ہمہ نوع تفتیشی امور سرانجام دینے میں مکمل مجاز ہونا چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ یہی ہے کہ وزیراعظم (جنہیں عدالت نے بہت کچھ کہہ دیا ہے) رضاکارانہ طور پر مستعفی ہوجائیں اور فی الحال اقتدار اپنے کسی قابل اعتماد ساتھی کے حوالے کر دیں۔



.
تازہ ترین