• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نوازکو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ پارٹی کریگی، مریم اورنگزیب

کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور ان کا خاندان پاناما کیس کے الزامات کا سامنا کرنے کیلئے تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونگے چاہے تحقیقات کسی بھی گریڈ کا افسر کرے۔ نیوز لیکس کا نوٹیفکیشن ایک دو دن میں جاری ہوجائیگا جس کے بعد تمام ابہام دور ہوجائینگے، مریم نواز کو آئندہ وزیراعظم بنانے کا پروپیگنڈہ اپوزیشن نے کیا تاہم وزیراعظم یا مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ، مریم نواز کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ پارٹی کریگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے تحت میٹ دی ایڈیٹرز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے وزیر مملکت مریم اورنگزیب کو اجرک اور یادگاری شیلڈ پیش کی۔ سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے وزیر مملکت کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ سی پی این ای کی کوشش ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر اخبارات کے مسائل کو حل کرے، ہمیں یقین ہے کہ اخبارات کے اشتہارات اے بی سی آٹومیشن سسٹم سمیت دیگر مسائل کو وزیر مملکت فوری حل کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ سی پی این ای نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت اشتہارات کے ریٹس میں 25 فیصد اضافہ کرے تاہم حکومت نے 15 فیصد اضافہ کردیا ہے، ہم توقع کرتے ہیں کہ باقی 10 فیصد اضافہ بھی جلد کردیا جائے گا۔ وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت صحافیوں کی سیکورٹی، ویلفیئر اور دیگر معاملات کے حوالے سے قانون سازی کررہی ہے۔ قانون سازی پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔ قانون سازی کا نام جرنلسٹس ویلفیئر اینڈ سیکورٹی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی تربیت کے لئے سی ای جے آئی بی اے، ملکی اور غیر ملکی جامعات سے معاہدہ کیا جارہا ہے اور صحافت کے حوالے سے تین سالہ تربیتی پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے بی سی آٹومیشن سسٹم پر سی پی این ای کو اعتماد میں لیا جائے گا اور اس حوالے سے پی آئی ڈی کی ٹیم سی پی این ای کے ارکان کو بریفنگ دے گی اور ان کی مشاورت سے مرحلہ وار اس نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صحافت میں پرنٹ میڈیا کا انتہائی اہم کردار ہے اور میری ترجیح یہ ہے کہ تمام میڈیا ہائوسز سے روابط رکھے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت آزادی صحافت پر کوئی قدغن لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ نیوز لیکس کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ نیوز لیکس کے معاملے پر ابہام پیدا کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ وزیراعظم ہائوس سے نیوز لیکس کے بارے میں جو نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا وہ عمل درآمد کے لئے ہدایت نامہ ہے، اس حوالے سے مکمل نوٹیفکیشن آئندہ دو سے تین روز میں وزارت داخلہ جاری کردے گی جس کے بعد بے یقینی کی تمام صورتحال ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ نیوز لیکس کے معاملے پر اے پی این ایس سے رابطے کے حوالے سے وزیراعظم ہائوس سے جو نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، اس کے اصل مندرجات وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد سامنے آئیں گے، جو بھی صورتحال ہوگی، اے پی این ایس اور سی پی این ای کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی تو مختلف مسائل تھے لیکن حکومت کی پالیسیوں کے سبب ملکی مسائل حل ہورہے ہیں اور پاکستان کے ادارے مستحکم ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ نیوز چینل کی اگر شام 7 بجے سے لے کر رات 12 بجے تک کی نشریات دیکھی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ختم ہوجائے گا لیکن جب صبح اخبار پڑھتے ہیں تو صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے اور اصل بات اخبارات کے ذریعے واضح ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کسی کی ذاتیات کو نشانہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہائوسز، اے پی این ایس اور سی پی این ای کو چاہئے کہ وہ ازخود ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرائیں اور دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کریں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پہلی مرتبہ پاکستان میں فلم پالیسی بنا رہی ہے، اس پالیسی کا مقصد دنیا میں پاکستان کے قومی ورثے اور مثبت امیج کو اجاگر کرنا ہے اور اس پالیسی سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشن ردالفساد اور دیگر آپریشنز کامیابی کے ساتھ جاری ہیں۔ مریم اورنگزیب نے کہا کہ اخبارات کی اے بی سی کے لئے آٹومیشن سسٹم ایک متوازن نظام ہے، جس میں قومی، صوبائی، ریجنل اور علاقائی اخبارات اور جرائد کو متوازن رکھنے اور اشتہارات کی تقسیم کے لئے واضح پالیسی بنائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات ونشریات ملک کے 70 ویں جشن آزادی کے لئے ایک فلم، دو ڈرامے اور دو ملی نغمے بنا رہی ہے جسے یوم آزادی پر پیش کرے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سی پیک ملکی معاشی ترقی کا اہم منصوبہ ہے اور سی پیک پر پاکستان کے مفاد کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیا ہے، اس حوالے سے تمام تاثرات غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جلد وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقیات احسن اقبال کراچی آئیں گے اور سی پیک پر سی پی این ای کے ارکان کو بریفنگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذاتیات کی بناء پر کسی واقعے کو تخلیق کرنا غلط ہے۔ جمہوریت اور صحافت کا گہرا تعلق ہے۔ اب لوگ بھی کہتے ہیں کہ سنسنی خیز خبروں کی بھرمار نہیں ہونی چاہئے۔ ملک میں انٹرٹینمنٹ چینلز کے دیکھنے کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں قوم کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی ثقافت سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اخبارات کی ڈکلیریشن کے طریقہ کار کو بھی سہل بنایا جارہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کو جب ٹی وی پر 8 گھنٹے تک دکھایا جائے گا تو صحتمند پاکستان کا امیج کس طرح اجاگر ہوگا۔ اگر بابرہ شریف اور وحید مراد کی شناخت بھی پاکستان کی پہچان ہو تو صحتمند پاکستان کے لئے یہ بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے حوالے سے ملک کے بارے میں جو منفی تاثر قائم کیا گیا ہے، اسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ مریم نواز کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ایک سال اور 17 دن تک مفروضوں کی بنیاد پر منفی سیاست کی اور ایک خاتون کو قومی سلامتی کے معاملے سے جوڑ دیا گیا۔بغیر کسی تحقیق کے الزام لگانا گناہ ہے۔ مریم نواز کو متبادل یا آئندہ وزیراعظم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ، مریم نواز کو وزیراعظم کے لئے امیدوار اپوزیشن نے بنایا ہے اگر مریم نواز سیاست میں آتی ہیں تو پھر وہ کسی حلقے سے الیکشن لڑیں گی۔ آئندہ انتخابات میں وزیراعظم کے لئے کون امیدوار ہوگا، اس کا فیصلہ پارٹی قیادت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو مینڈیٹ عوام نے دیا ہے اور یہ اللہ کی مہربانی ہے اور عوام کا اعتماد ہے کہ وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم پر مختلف الزامات لگائے گئے۔ وزیراعظم نے پاناما لیکس کے معاملے پر اپنے پہلے خطاب میں واضح کردیا تھا کہ اگر ان الزامات پر جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے تو وہ تیار ہیں۔ اس حوالے سے کمیشن کے قیام کے لئے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھا گیا۔ بعد میں یہ کیس سپریم کورٹ میں چلا اور وزیراعظم نے تمام الزامات کا سامنا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ادارے نے وزیراعظم کو جھوٹا قرار نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کا خاندان اپنی تین نسلوں کا حساب دے رہا ہے۔ وزیراعظم اپنے والد کے زمانے سے حساب دینے کے لئے تیار ہیں۔ اب اگر وزیراعظم حساب دے رہے ہیں تو پھر سب کو حساب دینا چاہئے اور اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے اعتماد کے لئے وزیراعظم اور ان کا خاندان کسی بھی سطح پر یا کسی بھی گریڈ کے افسر کے سامنے الزامات کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ وزیراعظم کو جہاں بھی جواب دینا پڑا، وہ جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والا وقت بھی جمہوریت کا ہے۔ بینظیر بھٹو ایک بڑی سیاسی لیڈر تھیں۔ ان کی شہادت ملک اور خطے کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے گھڑے مردے نہیں اکھاڑنے چاہئیں۔ ملک میں جمہوریت مستحکم کرنے کے لئے نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ہی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے تھے۔ انہوں نے سی پی این ای کے ارکان کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے تمام مسائل کے حل کے لئے میں اور میری ٹیم ان سے رابطے میں رہے گی۔  قبل ازیں سی پی این ای کے نائب صدر عامر محمود نے وزیر مملکت کو نیوز لیکس کے حوالے سے سی پی این ای کے تحفظات، اخبارات کی اے بی سی کیلئے آٹومیشن سسٹم اور دیگر مسائل سے آگاہ کیا اور سی پی این ای کی جانب سے مطالبہ کیا کہ نیوز لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔سینئر صحافی ڈاکٹر جبار خٹک نے وزیر مملکت کے سامنے اردویونیورسٹی کے وائس چانسلر کی پی ایچ ڈی کی ڈگری جعلی ہونے کا معاملہ اٹھایا جس پر انھوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ معاملے کو متعلقہ حکام کے سامنے رکھیں گی ۔سینئر صحافی امتیاز عالم نے کہا کہ ہم نیوز لیکس کے معاملے کی آڑ میں کسی اخبار پر پاپندی کو قبول نہیں کریں گے ۔سینئر صحافی انور ساجدی نے وزیر مملکت کو ریجنل اور علاقائی اخبارات کے مسائل سے آگاہ کیا ۔اس پر وزیر مملکت نے یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے کو مشاورت سے حل کیا جائے گا ۔  اس موقع پرسی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق ، پرنسپل انفارمیشن آفیسر محمد سلیم، سی پی این ای کے نائب عامر محمود ،ڈی جی پی آئی ڈی کراچی سکندر شاہ اور کونسل کے ارکان کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
تازہ ترین