• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بارہ مئی کو عالمی برادری انٹرنیشنل نرسنگ ڈے منا رہی ہے جس کا مقصد نرسوں کے انسانی معاشرے میں اعلیٰ مقام کا اعتراف کرنا ہے، افسوس کا مقام ہے کہ آج ہم خدمتِ انسانیت سے نہ صرف غافل ہوتے جا رہے ہیں بلکہ نرسنگ کے باوقار شعبے کو بھی عزت و احترام دینے سے قاصر ہیں، قیامِ پاکستان سے تاحال ملک میں متعدد ایسی انسان دوست شخصیات گزری ہیں جنہوں نے اپنی زندگی انسانیت کیلئے وقف کر دی، پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا تعلق ایک نواب گھرانے سے تھا لیکن پاکستان کی محبت میں انہوں نے سب قربان کر دیا، انتقال کے موقع پر ان کا پھٹا ہوا بنیان زیب تن کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے غریب عوام کیلئے جو کہا وہ کر دکھایا، ان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے نرسنگ کے پیشے کے وقار کی سربلندی کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات سر انجام دیں، انہوں نے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کیلئے قائم خدمت کیمپس میں نادار مریضوں کی تیمارداری یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے، اس زمانے میں پاکستانی اسپتالوں میں خواتین نرسوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، بیگم رعنا کی ذاتی دلچسپی سے عوام نے نرسوں سے متعلق سماجی تعصبات کو ختم کرتے ہوئے اپنے رویوں پر نظرثانی کی اور آج ہمارے اسپتالوں میں جو نرسیں نظر آتی ہیں وہ بیگم رعنا کی عظیم جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ بارہ مئی کا دن جدید نرسنگ کی بانی برطانوی نرس فلورنس نائٹ انگیل کی سالگرہ کا دن ہے اور میرے آج کے اس کالم کا مقصد فلورنس، رعنا لیاقت علی خان سمیت تمام نرسوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کچھ تجاویز پیش کرنا ہے، فلورنس نائٹ انگیل نے 21 مئی 1820ء کو پھولوں سے منسوب شہر فلورنس میں ایک جاگیردار امیر گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن اس نے اپنی ساری عمر دھُکی انسانیت کی خدمات میں گزار دی، کہا جاتا ہے کہ جب وہ بارہ سال کی تھی تویہ سوچ سوچ کر بے چین رہا کرتی کہ ایک امیر زادی کیلئے عیش و آرام کی زندگی کیونکر جائز ہے جبکہ دنیا تکالیف کا گھر بن چکی ہے؟ انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کیلئے فلورنس نے عملی زندگی کیلئے نرسنگ کا شعبہ منتخب کرلیا، ایک تن تنہا جوان خاتون کیلئے یہ فیصلہ ان حالات میں کوئی آسان نہ تھا جب مغرب میں نرسنگ کا شعبہ نہایت معیوب سمجھا جاتا تھا، ایسی صورتحال میں نہ صرف فلورنس نے اس شعبے میں قدم رکھا بلکہ اپنی ہمت، بہادری، خلوص سے ایسی خدمات سر انجام دیں کہ آج تمام دنیا نرسنگ کے شعبے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ فلورنس نے چونتیس سال کی عمر میں اپنی خدمات کریمیا کے محاذِ جنگ کیلئے پیش کر دیں، شہری سہولتوں کی عدمِ دستیابی میں جنگ سے متاثرہ مریضوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی کیلئے ہرممکن حد تک اپنے آپ کو وقف کیا، جب رات کو ڈاکٹر آرام کررہے ہوتے تو فلورنس لالٹین ہاتھ میں اٹھائے مریضوں کی دلجوئی کیا کرتی، تمام عمر انسانیت کی خدمت میں مشغول رہنے والی فلورنس نائٹ انگیل نوے سال کی عمر میں 13اگست 1910ء کو پرسکون انداز میں انتقال کرگئی۔ فلورنس کی داستانِ حیات نہ صرف ہم سب کیلئے مشعلِ راہ ہے بلکہ سبق آموز بھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے آپ کے پاس صرف ایک دردمند دل ہونا ہی کافی نہیں بلکہ عملی جدوجہد کو کامیاب بنانے کیلئے معاشرے کی نازیبا باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے زندگی کا ایک واضح مقصد بھی پیش نظر ہونا چاہئے اور یہی وجہ ہے کہ آج سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود فلورنس نائٹ انگیل کا نام دنیا بھر میں امر ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2کروڑ سے زائد نرسیں دنیا کے مختلف اسپتالوں میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نرسیں امریکہ میں ہیں۔ آج بدقسمتی سے پاکستان میں نرسنگ کا شعبہ بھی اسی طرح سماجی امتیاز کا شکار ہے جیسا فلورنس کے زمانے میں مغرب میں تھا، اس سلسلے میں ہمیں اپنے معاشرے کا مائنڈ سیٹ بدلنے کیلئے بیگم رعنا لیاقت کی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے، میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ باوجود اس امر کہ بہترین نرسنگ کیئر کے بغیر علاج معالجے کی بہترین سہولتوں کی فراہمی کسی طور ممکن نہیں تو آخر ہم لوگ خواتین کے نرسنگ کا شعبہ جوائن کرنے کو معیوب کیوں سمجھتے ہیں، ہمارا معاشرتی المیہ یہ ہے کہ جب ہمارے اپنے گھرانوں کی خواتین اسپتالوں میں داخل ہوتی ہیں تو ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی تیمارداری کیلئے رات کو خواتین نرسوں پر مشتمل بااخلاق اسٹاف تعینات ہو، زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مریض کیلئے نرم گفتار، دلجمعی اور اخلاص سے خدمت کرتی نرس کا وجود ناامیدی کے اندھیرے میں امید کی کرن ہوا کرتا ہے لیکن ہم خود اپنی خواتین کو نرس بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے بلکہ جو خاتون اس باوقار پیشے میں دلچسپی کا اظہار کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کرنا خاندانی غیرت کا تقاضا بنا دیتے ہیں، ہمارے انہی تحقیر، ناقدری اور تذلیل پر مبنی رویوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے مصروفِ عمل نرسوں کو قدم قدم پر سماجی و معاشی مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا ہے، ڈاکٹر کے غصے کے علاوہ متعدد مواقع پر نرس کو مریض یا اس کے لواحقین کی جانب سے بدتمیزی اور جسمانی تشدد تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نرسوں کو بھی ڈاکٹروں کی طرح اسپتال میں طویل دورانئے کی ڈیوٹی نبھانی پڑتی ہے جبکہ ایمرجنسی صورتحال کے پیش نظر نرسوں کو اوور ٹائم بھی لگانا پڑتا ہے مگر اجرت کے بغیر، پاکستان میں مہنگائی کے اس ہوشربا دور میں ایک نرس کم تنخواہ پر بیک وقت متعدد اسپتالوں میں کام کرنے پر مجبور ہے جبکہ نجی اسپتالوں میں نرسنگ اسٹاف سے استحصال کی شکایات عام ہیں۔ جہاں ایک طرف سماجی رویوں میں بہتری ضروری ہے وہیں دوسری طرف اعلیٰ سطح پر بھی نرسنگ کا شعبہ حکومتی توجہ کا مستحق ہے، میڈیا اطلاعات کے مطابق ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں بالخصوص آئی سی یو، سی سی یو، آپریشن تھیٹرز اور ایمرجنسی وارڈز میں نرسوں کی تعداد مطلوبہ شرح سے نہایت کم ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں پیشہ ور نرسوں کی تعداد ستر ہزار سے بھی کم ہے، ملک بھر میں نرسنگ کی تعلیم و تربیت کیلئے عالمی معیار کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جہاں بیرونی دنیا میں قائم اسپتالوں میں خدمات سرانجام دینے والی نرسوں کے تجربے سے بھی استفادہ کیا جاسکے، پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں نرسنگ کے شعبے میں ڈپلومہ اور ڈگری پروگرام پیش کرنے والے اداروں کی تعداد صرف پانچ ہے جبکہ اس حوالے سے پاکستانی نرسوں کیلئے بیرون ممالک اسکالر شپ، فیلو شپ اور پروفیشنل تبادلہ پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ سماجی امتیاز، ناانصافی اور دیگر منفی رویوں کا مظاہرہ لامحالہ طور پر نرس کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن ایک ذمہ دار اور فرض شناس نرس کو فلورنس نائٹ انگیل کی داستانِ حیات ہمیشہ مدنظر رکھنی چاہئے کہ دکھی انسانیت کی خدمت سے بڑھ کر کوئی سکون نہیں، اس کٹھن جدوجہد میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے لیکن ایک نرس کو کسی صورت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے، میں نرسوں کے عالمی دن پر فلورنس نائٹ انگیل اور بیگم رعنا لیاقت علی کے نقشِ قدم پر چلتی خدمتِ انسانیت میں دلجمعی سے مشغول تمام پاکستانی نرسوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے مریضوں اور ان کے لواحقین سے استدعا کروں گا کہ اگر ان کا سامنا کسی نرس سے ہوتا ہے تو وہ ہیپی نرسنگ ڈے کہہ کر انکی اعلیٰ خدمات کو سلام پیش کریں کیونکہ ڈاکٹر کے شانہ بشانہ مریض کی دلجوئی کرتی ہوئی، انجیکشن لگاتی ہوئی، ڈِرپ چڑھاتی ہوئی اور آپریشن تھیٹر میں طبی آلات پکڑاتی ہوئی نرس بھی اسی طرح عزت و احترام کی مستحق ہے جیسے ایک ڈاکٹر۔ میں یہ تجویز بھی پیش کرنا چاہوں گا کہ حکومت کو صوبائی اور قومی سطح پر ہر سال بارہ مئی کو نرسنگ کے شعبے میں نمایاں خدمات سرانجام دینے والی نرسوں کیلئے سالانہ نرسنگ ایوارڈز کا انعقاد کرنا چاہئے تاکہ اس معزز پیشے سے وابستہ نرسوں کوہمارے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاسکے۔

.
تازہ ترین