• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی جی سندھ کی عہدے سے الگ ہونے کی پیشکش،سندھ ہائی کورٹ کا انکار

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے درخواست جمع کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 6ماہ سے ان کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور وہ  وفاقی حکومت کے پاس جانا چاہتے ہیں تاکہ صوبائی حکومت اپنی پسند کاآئی جی لگاسکے،بدھ کو جسٹس منیب اختر کی سر براہی میں 2رکنی بنچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے اور سردار عبدالمجید دستی کو قائمقام آئی جی سندھ مقرر کر نے کے خلاف کرامت علی ،فداحسین حاجی اور شہزاد رائے سمیت دیگر کی درخواستوں کی سماعت کی،سماعت کے موقع پر آئی جی سندھ کی جانب سے شہاب اوستو ایڈووکیٹ نے وکالت نامہ اور حکم امتناع ختم کرنے کے حوالے سے درخوا ست جمع کر وائی ،جس میں کہا گیا  ہے کہ ان کے لیے گزشتہ6ماہ کے دوران کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور 31مارچ کو صوبائی حکومت کی جانب سے خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے حکمنامے کے بعد عہدے پر کام کرنا مشکل ہو چکا ہے، پولیس میں ٹرانسفر اورتقرری ان کے علم میں لائے بغیر کی جارہی ہیں جبکہ وہ وفاقی حکومت کے پاس جانا چاہتے ہیں تاکہ صوبائی حکومت اپنے پسند کا آئی جی بناسکے اس کے علاوہ وہ اب تعیناتی کے معاملے کو ختم ہونا چاہیئے ،وہ پولیس کے بہترین مفاد میں رضاکارانہ عہدے سے الگ ہونا چاہتے ہیں ،ان کا نام بطورفریق درخواست سے نکالا جائے تاکہ وفاقی حکومت سے اپنی سروس سندھ حکومت سے واپس لینے کی درخواست کرسکوں،دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نہ تو مدعاعلہیان کا نام نکال سکتی ہے اور نہ ہی حکم امتناع جاری کر سکتی ہے، اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیرگھمرو نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل میں کہا کہ2001 کا پولیس آرڈر آمر کا دیا ہوا قانون تھا جو ایمرجنسی کے ختم ہوتے ہی ختم ہو گیا ، 1935 سے ریگولر پولیس ،ولیج پولیس،ریلوے پولیس اور رینجرز صوبائی معاملہ رہے ہیں جبکہ 1973 میں رینجرز اور ریلوے پولیس صوبوں سے واپس لے لئے گئے اور اب صوبے میں صرف ریگولر پولیس رہ گئی ہے ،وفاق یہ اختیار بھی واپس لینا چاہتا ہے، بعدازاں فاضل عدالت نے درخواست کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے حکم امتناع  برقرار رکھا ۔ 
تازہ ترین