• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں توخیبرپختونخوا میں ان کے بہت سےساتھی گزشتہ دس سالوں میں بے نظیربھٹو کی شہادت کے بعد یا تومعاشرے میں گمنام ہوچکے ہیں یا دیگرپارٹیوں کا حصہ بن کرکچھ بہت فِٹ اورکچھ مِس فٹ سی لائف گزاررہے ہیں لیکن پتہ نہیں سابق صدرزرداری پھربھی پشاورمیں بیٹھ کرکس بنیاد پرکہہ رہے تھے کہ اب ایک بارپھر ان کی باری ہے۔اس صوبے کے لئے آپ نے اپنی حکومت میں اسے نام دینے سمیت جوجوکچھ کیا وہ سرآنکھوں پر، لیکن جہاں تک بات پارٹی کی ہے توکارکن کے بغیرپارٹیاں کہاں چلاکرتی ہیں؟ دس سال پہلے آپ نے بھرے بازار میں بچے کی صورت آپ کا ہاتھ تھامے اپنے کارکن سے انگلی چھڑائی اوراسے اپنے ہاتھوں گم کردیا اوریہاں تک کہ بعد میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش تک نہیں کی۔ بی بی کے بعد آپ نے کارکن کو چھوڑا تواسے ایک دلاسہ دیا کہ صوبے میں وہ اے این پی کے ساتھ اقتدارمیں شریک ہے وہ دہائیاں دیتا اورچِلاتا رہا کہ وہ صوبائی حکومت بااختیارنہیں بلکہ برائے نام شریک اقتدار ہے اورسارا اختیاراتحادی جماعت اے این پی کے پاس ہے آپ نے پھراسے ری کنسی لیشن یعنی مفاہمت کے نام پرخاموش رہنے کا کہا، پھراس نے سوال اٹھایا کہ اب توآپ خود صدرپاکستان ہیں اب توبی بی کے قاتل انجام تک پہنچنے چاہئے لیکن آپ کے پانچ سال میں بھی اس کے دل میں لگی آگ نہ بجھ سکی وہ دیکھتے رہے اورآپ مفاہمت کے نام پر پرویزمشرف کو گارڈ آف آنردیتے رہے۔ پھرگجرات کے چوہدری برادران پرآپ کی نظرکرم ہوئی کارکن پھربھی یہ دیکھتے رہے اوران کے دل ٹوٹتے رہے۔ شروع شروع میں انہیں صوبے میں اے این پی کے ساتھ شراکت اقتدار کے دوران محرومیوں کا شکار کرتے رہے وہ خاموش رہے اورروتے رہے لیکن آپ نے بھی اے این پی کے ساتھ ان کے لئے کوئی ایسی بات نہیں کی جسے وہ اپنے حق کی آواز اوردلاسہ سمجھتے۔یہ کارکن کون تھے یہ تھے گلی کوچوں میں شروع دن سےپارٹی کے نام پرلوگوں کی غمی خوشی میں پیش پیش رہنے والے یہ کارکن کس کس نام سے جانے جاتے رہے وہ ہرالیکشن کے دوران خالی ہاتھ ہونے کے باوجود شہروں کے طاقتور اورسرمایہ داروں کے سامنے ڈٹے رہے مرتے رہے لیکن کھڑے رہے اوریہی وہ کارکن تھا جس کی بنیاد پر پیپلزپارٹی پیپلزپارٹی تھی لیکن آپ کے دورمیں توپیپلزپارٹی جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کی پارٹی بنتی جارہی ہے وہ جن کے ہاتھوں پٹتے رہتے تھے اب پارٹی پرانہی لوگوں کا قبضہ ہوگا آپ کا جو کارکن اب تک مشکلات اورغموں کے ہاتھوں نہیں مرا تھا اب پارٹی پرجاگیرداروں،سرمایہ داروں اورنیب وکرپشن کے الزامات کی زد میں رہنے والوں کوقابض دیکھ کردل کے مرض میں مبتلا ہوجائے گا۔ اب آپ کو پارٹی میں بڑے بڑے جاگیردار اور سرمایہ دارلیڈروں کے مزارعے، ملازم اوررشتے دا ر توملیں گے لیکن اپنا اصل کارکن نہیں ملے گا یہ سارے رشتے داراورملازم پارٹی کو کچھ دینے نہیں بلکہ اس کے نام پرخود کچھ وصول کرنے کے چکروں میں آپ کے ساتھ ہیں یقین نہ آئے توذراخدانخواستہ کوئی سخت وقت آنے دیں ایسے کسی ایک کارکن نے اپنے جسم کا ایک قطرہ خون بھی پارٹی کودیا توجو چورکی سزاوہ مجھے اپنے لئے قبول ہوگی۔
خیبرپختونخوا کے کئی دن کے دورے کے دوران پیپلزپارٹی کے لئے کوڑے کھانے والے کتنے لوگ آپ کیساتھ تھے یا انہیں آپ تک پہنچنے دیا گیا، آپ کے دورے کے دوران پشاورمیں پارٹی ورکروں کی اگرکوئی خواہش پوری نہیں ہوئی تووہ صرف یہ تھی کہ کارکن ملنا چاہ رہے تھے لیکن ایک توآپ کے ارد گرد سیکورٹی کے حصاروں نے اسے ممکن نہ ہونے دیا دوسری جانب اس پانچ روزہ دورے میں کارکنوں کے لئے کوئی پلان نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ ممکن نہ ہوسکا۔ ان کارکنوں کے بغیر آپ نئے طرز کی پیپلزپارٹی بنانے جارہے ہیں کیا؟اچھا بنا بھی لیں گے توکیا کرلیں گے ؟ کم ازکم اتنا یاد رکھیں کہ بھٹومرحوم کی پھانسی کا سن کرخود کوآگ لگانے والا کارکن ہی دراصل ایسا اثاثہ تھا جو کسی کے پاس نہیں ایسے میں نئے لوگوں کے ساتھ مل کرکتنا چلیں گے اورمفاد کے نام پرساتھ دینے والوں سے آپ کیا اورکتنا کام لے سکیں گے؟
یہ مانتا ہوں کہ پیپلزپارٹی کی حیثیت گوشت جیسی ہے، پشتوکی کہاوت ہے کہ گوشت جتنا بھی جل جائے مزہ پھربھی اس کا دال سے بہترہی ہوتا ہے اوراسی یقین کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ کا جیالا اب بھی کونے کھدروں میں چھپا بیٹھا وقت کا انتظارکررہا ہے وہ جوبے نظیرشہید کے آخری دورہ پشاورکے دوران بہت سے خطروں کے باوجود اپنی قائد کے ساتھ ساتھ رہا، کسی کو یاد ہو یا نہ ہولیکن پشاورکے لوگوں کو آج بھی وہ دن بہت اچھی طرح یاد ہے جب کئی باربے نظیربھٹوکوسیکورٹی کے نام پر دورے سے منع کیا گیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اورہراس جلسے میں گئیں جہاں پران کا جیالا ان کا منتظرہوتا تھا پشاورکا ارباب نیازسٹیڈیم توسب کو یاد ہے کہ جہاں پرجلسے سے پہلے یہ خبریں بھی اڑیں کہ ا سٹیڈیم کے دروازے پرخودکش حملہ آورپہنچ چکا ہے اتنے تنائو والے ماحول میں بھی آدھے بھرے اورآدھے خالی اسٹیڈیم میں آئیں اورخطاب کرکے ہی چھوڑا۔
خطرہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے جتنا بچا جائے بہتر ہوتا ہے لیکن بے نظیربھٹو نے کبھی اس کی پروا نہیں کی، آصف زرداری نے اگرسیکورٹی خطرات کو دیکھ کر اپنے دورے اورنقل وحمل کومحدود رکھا تو وہ بھی کوئی برا نہیں کیالیکن انہیں پشاورسمیت کہیں کا دورہ کرنا ہو توانہیں یاد رکھنا ہوگا کہ ان سے پہلے یہاں آنے والی بے نظیرنے کیا کیا روایات قائم کی ہیں جنہیں برقراررکھنا شاید ان کے بعد آنے والوںکےلئے ممکن نہ ہوگا، ایک ایسی بہادرخاتون جنہیں باربارمنع کیا گیا کہ شہرکی گلیوں میں واقع کارکنوں کے گھروں میں جانے سے گریز کریں لیکن وہ پھربھی کارکن کے پاس گئیں ان کے بعد کسی شہرمیں جانے سے پہلے زرداری صاحب کو ذرا ان کے دوروں پربھی نظرڈالنی چاہئے تھی اورکم ازکم کسی ایک غریب کارکن کے گھربھی جانا چاہئے تھا۔ جناب یہ تنقید نہیں مشورہ بھی ہے جو خلوص نیت سے دیا جا رہا ہے۔



.
تازہ ترین