نیا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش ہوا تو اپوزیشن نے خوب ہنگامہ کیا، نعرے بازی کے بعد واک آؤٹ کردیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے پوری بجٹ تقریر ایوان میں بیٹھ کر سنی، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو شاباش بھی دی،وفاقی بجٹ پیش ہو اور اپوزیشن خاموش بیٹھی رہے،بھلا یہ کیسے ممکن ہے ۔
تلاوت اور نعت کے بعد وفاقی وزیر خزانہ بجٹ تقریر کے لیے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے ،اپوزیشن ارکان بھی کھڑے ہو گئےاور پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کے لیے اصرار کرنے لگے۔
اسپیکر ایاز صادق نےاپوزیشن لیڈر سے کہا کہ بجٹ تقریر سے پہلے تقاریر کی غلط روایت نہ ڈالیں، تاہم اپوزیشن لیڈر نے اصرار کیا ۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بولے وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن لیڈر کو ’اسپیشل کیس‘کے طور پر بات کرنے دیں۔
سید خورشید شاہ نے اسلام آباد میں کسانوں پر پولیس تشدد کا معاملہ اٹھایا اور حکومت پر شدید تنقید کی۔
اپوزیشن لیڈر بول چکے تو دیگر ارکان نے بھی اسپیشل ٹریٹمنٹ کا تقاضا کر ڈالا۔
مگر اسپیکر نے کسی کی نہ سنی اور وفاقی وزیر خزانہ کو بجٹ تقریر کی دعوت دے دی،بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے طبل جنگ بجا دیا،جھوٹا جھوٹا کے نعرے لگنے لگے۔
اپوزیشن نے گو نواز گو اور نو نو کے نعرے لگائے تو وزیر اعظم نے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لیے ۔
اپوزیشن ارکان احتجاج کرتے اسپیکر ڈائس کے سامنے پہنچ گئے، جمشید دستی نے تو بجٹ تقریر اور ایجنڈے کی کاپیاں ہوا میں اڑا دیں، اس دوران حکومتی ارکا ن بجٹ تقریر پر ڈیسک بجا کر داد دیتے رہے۔
کچھ دیر بعد اپوزیشن ایوان سے واک آؤٹ کر گئی،طویل عرصے بعد وزیر اعظم کو ایوان میں پا یا تو موقع غنیمت جان کر متعدد ارکان اسمبلی ان سے ملنے جا پہنچے ۔
کچھ دیر بعد اپوزیشن ایوان میں واپس آ گئی، فاروق ستار نے وفد کے ہمراہ وزیر اعظم کو تحریری بجٹ تجاویز بھی پیش کیں۔
عمران خان ایوان سے غیر حاضر رہے، چوہدری نثار بجٹ تقریر شروع ہوتے ہی ایوان سے نکل گئے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف وزیر اعظم کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے مسلسل محو گفتگو رہے۔
اجلاس ختم ہوا تو وزیر اعظم میاں نواز شریف اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سے بغلگیر ہوئے،پھر وفاقی کابینہ کے متعدد ارکان نے بھی اپوزیشن لیڈر کا شکریہ ادا کیا۔